ممبئی: ہماری آواز، 25 دسمبر// مشہور ومعروف اردوشاعر،نقاد اور مصنف اور محمد حسین آزاد کی مشہور زمانہ کتاب آب حیات کے انگریزی مترجم ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی کے آج الہ آباد میں انتقال کی خبر کے بعد ممبئی کے اردو ادبی حلقوں میں گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ برصغیر ہندوپاک میں اردو زبان اور ادب کا یہ سب سے بڑا نقصان ہے۔
مشہور ومعروف شاعرونغمہ نگار اور صحافی حسن کمال نے گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ شب خون کے ذریعہ ان کی ادبی خدمات کو بھلایا نہیں جاسکے،انہوں رسالہ میں حسن کمال کا ایک گیت شائع کیاتھا۔حسن کمال کانام اسی وجہ سے لوگوں نے جانا اور شہرت حاصل کی۔ان سے اکثرملاقاتیں ہو تی تھیں۔ممبئی میں قیام کے دوران بھی تعلقات بنے رہے۔
شخصیت نہایت مہربان تھے۔ان کے مہذب انداز کا ذکر کرتے ہوئے حسن کمال نے کہاکہ ادبی اختلاف پر مشتمل ہوجانے کے بجائے وہ مدلل طریقے سے جواب دیتے تھے اور سامنے والوں کو متاثر کرتے تھے۔ اور یہ اعتراف کیاکہ اردو ادب کے بارے میں ان سے بہت کچھ سیکھنے کوملا،وہ ایک عالم تھے۔
معروف صحافی اور روزنامہ ممبئی اردو نیوز کے مدیر شکیل رشید نے کہاکہ "میرا خیال ہے کہ یہ اردو زبان وادب کا سب سے بڑا نقصان ہے۔یہ برصغیر ہندوپاک کا نقصان ہے ،ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا ہے۔میری ان سے کئی ملاقاتیں ہوئی تھیں ، زبان کی معمولی معمولی غلطیاں بلاجھجک سدھارتے تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ اردو زبان اور ادب کا اتنا قدآور کوئی نہیں بچا ہے۔” انہوں نے کہاکہ ہمیشہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔
ممبئی میں انجمن اسلام اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر اور سابق ایچ اوڈی اردو ڈپارٹمنٹ کے صدرڈاکٹر عبدالستار دلوی نے کہاکہ شمس الرحمن فاروقی حالیہ دور کے بہت دانشور ونقاد تھے،انہوں نے اردو زبان کے فروغ اور اس کی بقاء کے لئے اہم اقدامات کیے اور کئی میدانوں میں کام کیا اور اس مت میں کامیاب بھی رہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئی اے ایس افسر اور پوسٹ ماسٹر جنرل کے عہدہ پر فائز رہتے ہوئے بھی انہوں نے اردو کے لیے جو خدمات کی۔ اور اردو ادب کے ساتھ ساتھ عالمی ادب پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ایک قابل اور لائق مصنف ہے اور یہ ایک ناقابل تلافی نقصان ہے،مرحوم پروفیسر شمس الرحمن فاروقی نے محمد حسین آزاد کی تصنیف آب حیات کا ایک اردو داں امریکی خاتون مصنف فرانسیس رچرڈ کے ساتھ انگریزی میں ترجمہ کیا ،وہ خود بھی انگریزی میں ایم اے تھے۔
معروف مصنف اور ممبئی یونیورسٹی کے سابق کارگزار صدر شعبہ اردو ڈاکٹر یونس اگاسکر نے کہاکہ وہ ایک پہلو دار شخصیات کے مالک تھے ،اپنے رسالہ شب خون کے ذریعہ جس طرح اردوزبان وادب کی خدمت کی۔ہے،اس کی ہمیشہ پذیرائی کی ۔انہوں نے اردو کے ابتدائی ادوارپرریسرچ کرتے ہوئے یہ بتایا کہ ہندی زبان کسی بھی طرح سے فطری طور پر نہیں پنپی ہے،بلکہ اسے سرکاری سرپرستی میں آگے بڑھایا گیا۔انہیں 21ویں صدی میں بھی انہیں شہرت حاصل رہی ،اس میں تخلیقی اپچ بھی تھی اور ذہانت بھی رہی۔وہ کبھی بھی بندھے ٹکے انداز میں ادب پر بات نہیں کرتے تھے بلکہ مدلل انداز میں بات کرتے تھے۔
اردوزبان میں ترقی پسند ادب کے بعدجدید یانئے ادب کو فروغ دینے میں ان کا اہم رول رہاہے۔
رسالہ اردو چینل کے مدیر اعلیٰ ڈاکٹر قمر صدیقی نے شمس الرحمن فاروقی کا انتقال اردو ادب کا ناتلافی نقصان قرار دیتے ہوئے مرحوم کے ساتھ اپنے بہتر تعلقات بھی حوالہ دیا۔انہوں نے کہاکہ اردو ادب میں تنقید کو نئے انداز میں متعارف کرایا۔اور تنقید کو ایک سمت عطا کی وہ بے مثال ہے۔فاروقی صاحب جدیدیت کے رجحان کی سرپرستی کی۔رسالہ شب خون کے ذریعہ زبان اور ادب کی خدمات ایک مثال ہے۔
قمر صدیقی نے مزید کہاکہ یہ اردو ادب کے لیے اس صدی کا بڑا صدمہ ہے ،تقریبا 25سال کے تعلقات رہے۔ زبان کے تعلق سے بڑے حساس تھے اور معمولی غلطی بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔کتنی بھی بڑی شخصیت سامنے ہو،اسے ٹوک دیتے تھے۔