تحریر: محمد انصار احمد مصباحی
اصلاح کے محتاج جلسے
فروغ اسلام، اصلاح عقائد اور اصلاح معاشرہ کے نام پر منعقد ہونے والے سیمانچل کے مذہبی جلسے، آج خود اصلاح کے سخت محتاج ہیں۔ ماضی میں مذہبی جلسوں سے بڑے بڑے میدان سر ہوئے ہیں، علاقے کا علاقہ فتح ہوا ہے؛ لیکن افسوس کی بات ہے، مثبت اثرات کی شکل میں، آج ان کا صرف نام بچا رہ گیا ہے۔
تاریخِ عالم کے سارے بڑے گناہ، مذہبی رسم و رواج کی تحریف شدہ شکلیں ہیں۔ یاد رکھیے! موجودہ طریقوں کے جلسوں اور عرسوں کی بر وقت اصلاح نہیں ہوئی تو وہ دن دور نہیں، جب ”میلے ٹھیلے والے جلسے“ دین قرار دے دیے جائیں گے؛ فرضی عرس، عبادت کا درجہ حاصل کر لے گا، جلسوں میں بے پردگی نیکی سمجھ کر کی جائے گی اور جلسوں و عرسوں کے لئے چندہ ، حج سمجھ کر دیا جائے گا۔ ایسا ہوگیا تو یہ دین میں کھلی تحریف ہوگی۔ ڈاکٹر اقبال کی زبان میں: ؏
ہو نِکو نام جو قبروں کی تجارت کرکے
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنَم پتھر کے
میری تحقیق کے مطابق جلسوں میں مندرجہ اصلاحات کی فوری ضرورت ہے، انھیں ہر عالم، ذمہ داران ملت، شیخ طریقت اور مبلغ اسلام خود پر لازم کر لیں:
مقصد: ہر عمل کا دار و مدار اس کی نیت پر ہوتا ہے۔ جیسی نیت ہوگی، پھل بھی ویسا ہی ملے گا۔ نوے فیصد جلسوں کا مقصد صرف ایک ہوتا ہے، ”بچت“ اور بس۔
آئیے! اس بچت پر سرسری نظر ڈالتے ہیں!
ایک بڑے جلسے میں عموما تین گانوں شریک ہوتے ہیں اور آس پاس کے دس بارہ گانوں متاثر ہوتے ہیں۔ ایک ایک گانوں میں 200 گھر سمجھیں تو کل گھروں کی تعداد 750 ہوئی، ایک پریوار نے 500 روپے چندہ دیا تو 375000 روپے اکٹھے ہو گئے، ان تینوں گانوں کا ہر فرد بچہ ، بوڑھا اور نوجوان پچاس پچاس روپے بھی خرچ کریں تو لگ بھگ 2250000 روپے خرچ ہوئے، جلسے کے موقع پر ہر گھر میں کم سے کم تین کھانے والے مہمان اور کم از کم 6 چاے ناشتا والے مہمان ضرور حاضر ہوں گے، اس خرچے کا تخمینا دس لاکھ روپے ہوئے، ایک ماہ مسلسل چندے کے لئے خرچ کیا جاتا ہے، کم از کم دو لاکھ کا چندہ ہوتا ہے، جلسے سے قبل کپڑوں کی خرید داری، گھروں کی سجاوٹ، رشتے داروں کے گھروں پر دعوت کے لئے جانا وغیرہ ، ان سارے خرچوں کو جوڑ دیا جائے تو کل اخراجات پچیس لاکھ تک پہنچتا ہے۔
اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھیے!
پنڈال تا حد نگاہ وسیع، قمقمے اور روشنیاں گانوں کی سر حد پار تک، مہمان مقررین، شعرا اور نقبا کی شیطان کی آنت کی طرح لمبی فہرست، ستاروں کی تعداد کے اسپیکر، لمبے چوڑے پوسٹروں کا انبار۔ سب کو حساب دیتے دیتے مسجد ، مدرسہ یا فلاحی کام کے کھاتے میں پیسے بچتے ہیں ایک لاکھ، سوا لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ۔ اس کا بھی یہ حال کہ دس ہزار فلاں کے پاس، پچیس ہزار سیکریٹری کے پاس، کچھ اس کے پاس کچھ………… یعنی ؏
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کے
جو چیرا تو ایک قطرہ خوں نہ نکلا
جب تک مقصد میں خلوص رہا، ارادے نیک تھے، ایک مذہبی جلسہ، ہزاروں صفحات کی کتابوں کا کام سر انجام دیتا تھا، اب وہ ”روایات خرافات میں کھو گئی“ ہیں۔
عنوان:
بغیر کسی عنوان و موضوعِ سخن کے ” کانفرنس“ ایسی ہے، جیسے بغیر دیوار کے گھر۔ اہل سنت کے جلسوں میں جب سے ”مقتضاے حال“ اور عنوان خطابت کا رواج ختم ہوا ہے، کانفرنس اور جلسے بے مطلب ہوتے چلے گئے۔ اس کا مزید نقصان یہ ہوا کہ بے علم، آلسی اور رٹو مقررین ”خطابت“ کی کرسی پر براجمان ہوگئے، ارباب علم و دانش گوشہ نشیں ہوتے چلے گئے۔ گدھوں نے گدی سنبھال لی اور گھوڑے گھانس چرتے رہے۔
سیرت کی بات ہو تو وہی پانچ چھے واقعات؛ تاریخی معلومات سلطان صلاح الدین ایوبی، اورنگ زیب عالمگیر اور ٹیپو سلطان کے صرف ناموں کی حد تک واقفیت وہ بھی سن سناکر؛ احادیث سے واسطہ ہے تو اتنا ہے کہ کسی مسئلہ شرعی کو ”حدیث سے ثابت ہے“ کہہ دیا؛ فقہ کے مسائل سے تو دور کا بھی واسطہ نہیں، ماحول شناشی نام کی نہیں۔ یہی ہے ”خطباے عظام، سیاح ایشیا ویورپ اور مقررین ذی شان“ کی خوبیاں۔
جلسوں کو با مقصد بنانے کے لئے ”انتخاب عنوان“ بہت ضروری ہے۔
پردہ:
اس تعلق سے پچھلے مضمون میں تفصیل سے لکھا جا چکا ہے۔
نذرانہ:
لفظ ”نذرانہ“ میں رسما کہہ دیا؛ ورنہ یہاں ”قیمت“ استعمال کرنا زیادہ مناسب ہے۔
موٹے نذرانوں نے خطابت کو پیشہ بنا دیا، مقررین کو جیب پرور، آلسی اور بوجھل کر دیا، اس چیز کا ایک منفی اثر یہ ہوا کہ گدھے اور گھوڑے ایک ہی اصطبل میں چرنے لگے۔
آپ نے کبھی سوچا! ثواب کی نیت سے مزدور اپنے خون پسینے کی کمائی کا حصہ، عورتیں اپنا چولھا خرچ، طلبہ اپنی جیب خرچ اور بچے اپنے کُرکُرے کی رقم، بڑی آس و امید کے ساتھ، اللہ کے لئے جلسوں میں ہدیہ کرتے ہیں، منتظمین اس رقم سے کیسا کیسا معجون تیار کرتے ہیں، پیچھے گزر چکا ہے۔
مدارس کی پاکیزہ ہواؤں میں، مہمانان رسول ﷺ کو دین و سنیت سکھانے میں اپنی پوری توانائی صرف کرنے والے مدرسین کو تیس دنوں کی مسلسل جاں فشانی کے بعد آٹھ ہزار دس ہزار کی رقم ملتی ہے، سارے اخراجات اسی میں، مسجد کے امام کو پورے ماہ، بغیر کسی تعطیل کے، دیانت داری کے ساتھ خدمت انجام دینے کا معاوضہ پانچ ہزار بھارتی روپے ملتے ہیں؛ وہیں ایک رات، ڈیڑھ گھنٹے کے لئے قوم سے خطاب کرنے کا انعام بیس ہزار، تیس ہزار اور پچاس ہزار اور ان کی رہایش، سفر اور استقبالیہ کا پرتکلف نظم الگ۔ غیر فارغ رٹے ، گرج دار اور فاسق خطیب بڑی بڑی کرسیوں پر اٹ جاتے ہیں اور ہمارے قابلِ احترام علما، با صلاحیت استاذہ اور دین کا سچا درد رکھنے والے حفاظ کو اسٹیج میں بڑی مشکل سے جگہ مل پاتی ہے۔ یہی حال نعت خوانوں کا ہے۔ (میری نظر میں ، موجودہ وقت میں اسٹیج پر گانے والا کوئی بھی مداح شاعر نہیں ہے)
یہ نہ صرف دوسروں کی حق تلفی ہے؛ بلکہ انصاف کا سراسر قتل عام بھی ہے۔
ہمیں یہ روش بدلنی ہے۔ منبرِ نور کو علاقے کے اہل درس گاہ با صلاحیت مقررین کو سونپنا ہوگا، نذرانے کے نام پر آنے جانے کے خرچ کے علاوہ ایک لنگی، ایک جوڑا کپڑا یا اس کی قیمت پر اکتفا کرنا ہوگا؛ ورنہ مذہبی اور معاشی دونوں قسم کے دیوالیوں کی وجہ یہ توند پرور مقررین اور ”زلف دراز“ گویے ہوں گے۔ (جاری)