مضامین و مقالات

زندگی کیا ہے؟

محمد شاہ نواز عالم مصباحی ازہری سربراہ اعلی جامعہ حنفیہ رضویہ مانکپور شریف کنڈہ پرتاپ گڑھ یو پی 7765970129

پانچ, چھ فٹ کا انسان کہ جس کی زندگی خود اس کے اختیار میں نہیں جو خود اپنی مرضی سے وجود میں نہیں آیا اور نہ اپنی مرضی سے ہمیشہ زندہ رہ سکتا ہے۔ جس کی اگر سانس رک جائے تو وہ اسے بحال نہیں کر سکتا لیکن یہی پانچ چھ فٹ کا انسان کہیں خدائی کا دعویدار بن کر کھڑا ہے تو کہیں جانور سے بھی بدتر زندگی بسر کررہا ہے۔
بظاہر اس کا کوئی دشمن نہیں لیکن یہ خود اپنا بہت بڑا دشمن ہے۔ چاند پر قدم رکھ کر کائنات کی کھوج کرنے والا انسان آج خود اپنے دل میں موجود خدائی تصورسے بھی نا آشنا ہے۔اسے کس نے پیدا کیا ؟ اور کیوں پیدا کیا ؟ 
جب دنیا کا کوئی کارخانہ خود بخود وجود میں نہیں آتا تو اتنی بڑی دنیا کا کارخانہ کیسے وجود میں آگیا ہے اور صرف یہی نہیں کہ وجود میں آگیا ہے بلکہ مستقل مزاجی سے چل رہا ہے۔ یہ سورج جو اپنی جگہ سے ایک انچ بھی ہٹ جائے تو کوئی ایسی قوت نہیں جو اسے اپنی جگہ پر لا سکے۔ یہ آسمان جس کی بلندیوں کو ہماری آنکھیں روز دیکھتی ہیں جو حد نگاہ تک پھیلا ہوا ہے۔
کوئی اسے آج تک چھونا تو درکنار اس کا احاطہ بھی نہیں کرسکا۔ اسی آسمان پر پھیلے یہ ان گنت ستارے جو ہمارے سورج سے بھی کئی گنا بڑے ہیں۔ لیکن اپنی حقیقت روز آسمان پر ہمارے سامنےعیاں کرتے ہیں کہ وہ کچھ بھی نہیں کہ ایسی کئی کہکشائیں ہیں جہاں پہنچنے کے لئے ہم وقت کی قید میں ہیں۔اس جیسی کتنی ہی حقیقتیں ہیں جو ہمارے آس پاس بکھری ہوئی ہیں۔ لیکن ہماری عقل ماؤف ہے اور نظر خیرہ ۔ 
دیکھنے والوں کو آسمان کی طرح سب کچھ نظر آرہا ہے لیکن نہ دیکھنے والے آسمان کی تلاش میں نکل کر بھی آسمان تک نہیں پہنچ سکے۔ ہمارے پاس سوچنے اور سمجھنے کیلئے بہت وقت ہے لیکن ہم سوچنے کیلئے قطعاً تیار نہیں۔ یہی سوچ کا جمود انسان کو جانوروں سے مشابہہ کر رہا ہے۔
ہماری زندگی کی گھڑی الٹی گنتی چل رہی ہے اور زندگی برف کی مانند پگھلتی جا رہی ہے۔ ظاہر کو ہی سب کچھ سمجھنے والے اسی زندگی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں۔ 
اگر یہی سب کچھ زندگی ہے اور موت کے بعد کچھ نہیں تو بہت اچھا رہا وہ جس نے دنیا کی مال و متاع کو ہر جائز و ناجائز طریقے سے حاصل کیا۔ لیکن اگر ایسا نہیں جیسا کہ نظر بھی آتا ہے تو پھر کیا بنے گا اس انسان کا جس نے اپنا سارا وقت ضائع کر دیا۔ 
انسانی عقل کہتی ہے کہ خدا کے مان لینے میں کوئی نقصان نہیں لیکن نہ ماننے میں سراسر نقصان ہے۔ اگر خدا کو مان لیا جائے تو پھر اس کی خدائی بھی خود بخود نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ یقینا جب اس نے پیدا کیا ہے تو کوئی نہ کوئی مقصد بھی رہا ہوگا۔ 
میں یہ بات کیسے مان لوں کہ جب دنیا میں کوئی چیز بھی بغیر کسی مقصد کے نہیں تو ہم بے مقصد ہی دنیا میں آئے ہوئے ہیں۔ سورج، چاند، ستارے اور اس دنیا کا ذرہ ذرہ اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی چیز بے مقصد پیدا نہیں کی گئی۔ قدرت کے اس کارخانہ میں اگر غور کریں تو کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کارخانہ کو بگاڑنے کا اختیار رکھتی ہے۔ اگر کوئی اس کارخانہ میں بناؤ بگاڑ کا سبب بن رہا ہے تو وہ یہی انسان ہے۔ 
ہر جاندار و بے جان اپنے اپنے دائرہ میں قید ہے۔ شیر شکار کرتا ہے تو صرف ایک جانور کا اور اپنی بھوک مٹانے کے بعد بلاوجہ کسی پر حملہ نہیں کرتا۔ اسی طرح ہر جاندار اپنے اپنے دائرہ میں اپنا اپنا کام کرتے ہیں۔
آج تک ہمارے مشاہدہ میں ایسی کوئی بات نہیں آئی کہ کسی جاندار مثلاً کوے نے پائپ سے پانی پینا شروع کر دیا ہو۔ مچھلیوں نے پانی سے نکل کر زمین پر بھی رہنے کی کوشش کی ہو وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ بات مشاہدہ میں ہے کہ انسان نے اپنے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے کئی انسانوں کو شکار کرلیا ہو۔ انسان نے ہوا میں اڑنا اور پانی کے اندر جانا شروع کر دیا۔ اس کے پیدا کردہ دھویں سے ماحول میں تبدیلی واقع ہونے لگی۔انسان کے پاس یہ اختیار کس قدر ہے کہ وہ جو چاہے کرتا پھرے۔ کیا دنیا بنانے والے کو اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ اپنی دنیا کی حفاظت کرے۔ بظاہر تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اسے کوئی پرواہ نہیں ہے جو چاہے کرتا پھرے۔ لیکن اگر سوچیں تو پھر یہ آزادی کچھ محدود سی دکھائی دینے لگتی ہے۔ 
دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب کوئی قوم یا انسان دنیا کے وجود کیلئے خطرہ بنا اس خدا کا قانون حرکت میں آیا اور کئی نمرود، ہٹلر اور چنگیز خان کھوپڑی کے انبار لگانے کے بعد تاریخ سے اس طرح ختم ہوگئے کہ جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔اب اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ وہ رب العالمین انسانوں سے بے انتہا محبت کرتا ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ کب کا اس دنیا کو ختم کردیتا۔ جس طرح ایک ماں اپنے بچے سے محبت کرتی ہے اور پھر اس کو غلط بات پر سرزنش بھی کرتی ہے اسی طرح وہ پیدا کرنے والا خدا 70 ماؤں سے زیادہ بڑھ کر محبت کرتا ہے۔ بے لوث اور بے غرض محبت! وہ بھی کبھی کبھی ہماری سرزنش کرتا ہے کہ ہم صراط مستقیم پر آجائیں۔
لیکن ہم بگڑے ہوئے بچے کی طرح اپنے دنیا کے کھلونوں میں کچھ اس قدر گم ہوجاتے ہیں کہ اس خالق سے اس قدر غافل ہوجاتے ہیں کہ جیسے خود ہی پل بڑھ کر اتنے بڑے ہوگئے ہیں۔ پھر جب وہ خالق اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے کبھی ہمارے ہاتھ سے ہمارے کسی عزیز (کھلونے) کو چھین لیتا ہے تو ہم گڑ گڑا کر اس سے شکوہ کرنے لگتے ہیں۔ اس پر ہمارا کوئی بس نہیں چلتا۔ لیکن پھر بھی اس نے کبھی ایک لمحہ کیلئے بھی ہمیں تنہا نہیں چھوڑا۔ 
وہ ہماری طرف متوجہ ہے لیکن کوئی اسے پکارے تو سہی۔کبھی وقت ملے تو تنہائی میں ایک بار صرف ایک بار اسے سچے دل سے پکار کر تو دیکھئے پھر بتائیے گا کہ خدا ہے کہ نہیں؟ پھر آپکا وجود خود گواہی دے گا اور آپ کو پتہ چل جائے گا کہ زندگی کیا ہے؟

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے