از قلم: محمد معراج عالم مرکزی
رکن شعبہ نشر و اشاعت تحریک فروغ اسلام دہلی
(بائسی پورنیہ بہار)
بھگوا دھاری غنڈوں کے ذریعے دہلی میں جو فسادات ہوۓاس کے تذکرہ سے روح کانپ اٹھتی ہیں ،کتنے لوگ بے گھر ہوۓ،کتنوں کی جانیں گئیں،کتنوں کی دکانیں جلا دی گئیں ،کتنوں نے اپنی آنکھوں کی بینائیاں کھو دیں_ تو کتنوں کو پولیس نے جیل کی سلاخوں کے پچھے ڈال دیا لیکن ہر ایک کی سسکیوں کو سن کر لبیک کہنے والا بے باک ایڈوکیٹ جناب محمود پراچہ صاحب کے دفتر میں 24 دسمبر بروز جمعرات کو دہلی اسپیشل انٹیلیجنس کاؤنٹر انٹیلیجنس ٹیم نے چھاپے ماری کی اور کچھ دستاویز_ اور لیپ ٹاپ بھی ضبط کیا پولیس نے ایڈوکیٹ پراچہ پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے فساد سے متعلق مقدمات میں متاثرین کو غلط بیان دینے کی ترغیب دی ہے ۔حالانکہ محمود پراچہ نے ان کے خلاف لگاۓ گئے تمام بے بنیاد الزامات کی تردید بھی کی ہے۔ جبکہ کرائم برانچ کی ٹیم نے بھی انہیں بلایا اور یہ سوال کیا کہ وہ دہلی فساد متاثرین کے کیسیز واپس لے لیں مگر انہوں نے انکار کردیا اور کہا کہ مجھے کسی کا خوف نہیں ہے اور نہ ہی مجھے کسی سیکورٹی کی ضرورت ہے میرا محافظ صرف اللّٰہ تعالیٰ ہے اس سے بڑھ کر کوئی محافظ نہیں ۔
میں آپ کو بتاتا چلوں کہ دہلی فساد متاثرین پر دہلی پولیس کی طرف سے دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ کیسیز واپس لیں نیز اس کے لئے انہیں ڈرایا اور دھمکایا بھی جارہا ہے۔۔۔۔۔
_میں دہلی فساد متاثرین کی زبانی کچھ شواہد پیش کرتا ہوں:
(1)”میں شیو وہار میں رہتا ہوں شیو وہار کے پاس میں،میرا بھائی اور میرا پریوار اکیلا رہتا تھا رام لیلا میدان کے پاس وہاں میرے بھائی کو تین گولیاں ماری مارنے کے بعد جب وہ تڑپ رہا تھا تو اسے اٹھا کر کے جلتی ہوئی آگ میں ڈھکیل دیا میرا بھائی آگ میں سے کھڑا بھی ہوگیا کھڑا ہونے کے بعد اس کی پیشانی پر گولی ماری اور پیچھے سے ایک آدمی نے بم نکال کر پھینکا اور چتھڑے چتھڑے ہوگئے میرے بھائی کے ،میری گاڑی، میرا گھر،میرا کارخانہ،میرا سب کچھ وہاں جلا دیا گیا میں رات کو ڈیڑھ بجے وہاں سے سر میں تلک لگا کے بڑی مشکل سے بچوں کو نکال کے مصطفیٰ باد تک پہنچا ہوں ،اس میں جتنے بھی لوگ تھے سارے آرایس،ایس ایس،کے لوگ تھے ،بجرنگ دل کے لوگ تھے،نند کسور زندہ باد ،کپل مشرا زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے وہ کہہ رہے تھے کہ آج ہمیں کھلی آزادی ہے اور پولیس بھی ہمارے ساتھ ہے کل کو یہ موقع نہیں ملے گا اس شیو وہار سے ایک بھی کٹوا بچ کے نہیں نکلنا چائیے لیکن جب پراچہ صاحب نے میرا کیس لڑنا شروع کیا تو مجھے دھمکیاں مل رہی ہیں کہ کیس واپس لے لو "_(Hindustan live farhan)
(2)_”میرا نام ناصر خان ہے دہلی فساد میں میری جب ایک آنکھ چلی گئی تو جہاں جہاں سے مجھے مدد کی امید تھی میں وہاں وہاں گیا لیکن کسی سے مدد نہیں ملی ،میں پراچہ صاحب کے بارے میں پہلے سے ہی پڑھا تھا ،وہ مظلوموں کے مسیحا ہیں،Sc.Stاور جو بھی غریب لوگ ہیں ان کا بغیر پیسوں کے ساتھ کام کرتے ہیں پراچہ صاحب کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ مظلوموں کو انصاف دلاتے ہیں۔(رپورٹE.tv Bharat 25.Dec.20)
(3)”میرا نام وسیم احمد ہے میں کردم پور دہلی میں رہتا ہوں جب دہلی میں دنگا ہوا تھا تو میرے ساتھ جو برا برتاؤ ہوا تھانے میں جاکر ایف آئی آر کرنے کی کوشش کی مگر پولیس والوں نے بھگا دیا اور کوئی بھی سنوائی نہیں کی آخر کار ہم محمود پراچہ سے ملے ان کو ساری بات بتائی تو جب انہوں نے کیس لڑا اور ان پولیس والوں کے پاس نوٹس آئی تو انہوں نے ہمیں دھمکایا ڈرایا کہ کیس واپس لے لو ورنہ محمود پراچہ کے ساتھ تم بھی پھنسوگے اور تمہیں گولیوں سے اڑادونگا”(رپورٹE.tv Bharat 25.Dec.20) ۔
یہ چند نمونے ہیں جسے میں نے پیش کیا ہے ورنہ اس طرح کے بےشمار مظالم ہیں جو آئے_ دن بے یارو مددگار لوگوں کے ساتھ ڈھائے جاتے ہیں لیکن پراچہ صاحب ایک آواز پر مظلوموں کو ان کا حق دلانے کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ان کو انصاف دلاتے ہیں لھذا__ انہیں قصور کو لیکر آج جب انہیں پریشان کیا جارہا ہے تو ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ اس مشکل گھڑی میں ہم بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں اور ان کی ہمت افزائی کریں۔
میں بحیثیت کارکن تحریک فروغ اسلام پراچہ صاحب اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونے والے تمام لوگوں کے ساتھ اپنی حمایت کا اعلان کرتا ہوں،
ظلم و ستم سے ڈرنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا