از قلم: محمد شہباز عالم (جھارکھنڈ) متعلم الجامعتہ الاشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ یوپی
نیا سال شروع ہونے کو ہے دنیا کے مختلف ممالک میں نئے سال کا مختلف طریقوں سے استقبال کیا جاتا ہے ہر طرف دکانوں میں نیوایئر کارڈس ہو رہے ہیں کیلینڈر دیواروں سے اتارے جا رہے ہیں اور سن عیسوی کے ہندسے بدل جائیں گے ، نیا سال شروع جائے گا۔نئے سال کی آمد کے موقع پر ساری دنیا میں لوگ اپنے اپنے انداز سے جشن منانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں ۔ اس موقع پر نوجوان کچھ زیادہ ہی پرجوش نظر آتے ہیں ۔ کہیں فون وغیرہ کے ذریعہ مبارک بادیاں دی جاتی ہیں تو کہیں ٹیکسٹ میسیج کے ذریعہ مبارک بادیوں کا سلسلہ چلتا ہے۔کہیں نئے سال کے موقع پر پرتکلف جشن منایا جاتا ہے۔الغرض غیر مسلم بڑے جوش و خروش سے اس کو مناتے ہیں ۔
اب یہ سوال ہر مسلمان کے دل و دماغ میں گردش کر رہا ہے کہ کیا ہمیں شریعت نئے سال کی آمد کے موقع پر خوشیاں منانے کی اجازت دیتی ہے ؟ اس کا جواب جاننے سے قبل ہر مسلمان کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اسلام میں قمری نظام الاوقات کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔ جس کا سال جنوری سے نہیں بلکہ محرم سے شروع ہوتا ہے ۔اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں بارہ مہینوں کا تذکرہ فرمایا ان سے قمری مہینے مراد ہیں اور ان کو ہی اللہ عزوجل نے لوگوں کے لیے اوقات قرار دیا ہے ۔ شریعت کے کثیر احکام،عبادت و معملات بھی انہی پر مبنی ہیں
رہی صورت مسئولہ! نئے عیسوی سال کی آمد پر شریعت کے دائرے میں رہ کر خوشی منانا جائز ہے۔ کہ اللہ عزوجل نے نئے سال کا آغاز دیکھنا نصیب فرمایا ۔ہر سانس ہر گھڑی اللہ عزوجل کی عطا کردہ نعمت ہے ۔
لیکن حدود شرع کو پامال کرتے ہوئے نئے سال کی آمد پر خوشی منانا جیسا کہ اس موقع پر معاذاللہ! لوگ رقص و سرود کی محفلیں سجاتے ہیں، شراب و کباب جمع کیے جاتے ہیں ۔نئے سال کا آغاز ہوتے ہی نیو ایئر نائٹ کی محفلیں جمتی ہیں اور لوگ ہیپی نیو ایئر کی مبارک بادیاں پیش کرتے ہیں ۔ناچ گانے ہوتے ہیں، شراب نوشیاں ہوتی ہیں، آتش بازی، ہوائ فائرنگ کی جاتی ہے۔الغرض طرح طرح کے خلاف شرع امور کا ارتکاب کرکے خوشی منائی جاتی ہے اور اس تیاری میں اربوں کی فضول خرچی ہوتی ہے اور یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ نئے سال کے آغاز کے موقع پر ہمارے بہت سارے مسلم نوجوان بھی غیر مسلموں کے ساتھ خوشیاں مناتے وقت ناجائز اور نا مناسب کام کر جاتے ہیں جو شریعت اجازت نہیں دیتی ہے ۔ اور جو سلیم العقل انسان ہے وہ بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہیں ۔بلکہ حد تو یہ ہے کہ نوجوان اس رات شراب کے نشہ میں زناکاری جیسےگناہ میں مبتلا ہو کر دوسروں کی بہن بیٹیوں کی عزتوں کو پامال کرتے ہیں ۔
سال 2020 رخصت ہو رہا ہے ہمیں چاہیے کہ آنے والے سال کے بارے میں تھوڑا وقت نکال کر اپنا محاسبہ کرے کہ میں نے اس سال کیا پایا اور کیا کھویا؟ مجھے اس سال کیا کرنا چاہیے تھا اور کن کو نہ کرنا میرے لیے بہتر تھا۔ میں نے کن لوگوں کا دل دکھایا؟اور کس قدر مجھ سے گناہ ہوا ۔ میں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر کتنے فیصد عمل کیا ۔ میں نے کن سے ہمدردی کی، کس قدر مجھ سے گناہ ہوئے اور میں نے کن گناہوں کی تلافی کی ؟ ان تمام چیزوں کا ہمیں محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے، میری زندگی کا ایک سال کم ہو گیا اور میں نیکیوں سے محروم ہو گیا اور ہر آنے والا سال امیدیں اور توقعات لے کر آتا ہے اورانسان کے عزم کو پھر سے جوان کرتا ہے کہ جو کام پچھلے سال ادھورے رہ گئے انہیں اس سال مکمل کر لینا ہے ۔یہ انسانوں کو موقع فراہم کرتا ہے کہ گزشتہ غلطیوں سے سبق سیکھ کر آنے والے سال میں اس کی بھرپائ کرنے کی کوشش کریں ۔ ایک سال کا مکمل ہونا اور دوسرے سال کا آغاز اس بات کا کھلا پیغام ہے کہ ہماری زندگی میں سے ایک سال کم ہو گیا ہے اور ہم اپنی زندگی کے اختتام کے مزید قریب ہو گئے ہیں ۔ لہزا ہماری فکر اور بڑھ جانی چاہیے اور ہمیں بہت ہی زیادہ سنجیدگی کے ساتھ اپنی زندگی اور اپنے وقت کا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہمارے اندر کیا کمی ہے کیا کمزوری ہے ۔ کونسی بری عادت و خصلت ہم میں پائی جاتی ہے اس کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نیز اچھی عادتیں عمدہ اخلاق و کردار کا وصف اپنے اندر پیدا کرنے کی مکمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔