نتیجۂ فکر: شمس تبریز انجمٓ
جدہ، حجاز مقدس
شاہ طیبہ کا ہمیں فضل و عطا کافی ہے
شکر رب کا ہے ہمیں جو بھی ملا کافی ہے
مال و دولت کی نہ چاہت ہے نہ دنیا کی ہوس
ربِ کونین کی بس مجھ کو رضا کافی ہے
مجھ سے سو لاکھ گنہگار بھی جائیں جنت
آپ کا ایک اشارہ ہی شہا کافی ہے
گرمئ حشر سے بچنے کے لئے اے لوگو
آل و اصحابِ پیمبر کی ردا کافی ہے
آپ کے دستِ مبارک سے شہِ جن و بشر
جام کوثر کا ملے مجھ کو ذرا کافی ہے
عشق احمد میں ہوں بیمار طبیبانِ جہاں !
شہر طیبہ کی مجھے خاک شفا کافی ہے
مجھ کو طوفانِ حوادث کا نہیں حزن و ملال
میرے حق میں تو مری ماں کی دعا کافی ہے
سائلو آؤ یہاں خوب مرادیں پاؤ
پوچھ کے دیتے ہیں سرکار! بتا کافی ہے؟
درِ اغیار پہ پھر کس لئے جائیں انجمٓ
جب فقیروں کے لئے ان کی عطا کافی ہے