وقت نے انگڑائی لی، گردش ایام نے منھ پھرا، حادثات زمانہ در آئے، اور زندگی کا رخ بدل گیا۔ ظالم شترِ بے مہار کی طرح بھاگے جارہی تھی بغیر کسی مقصد و مطلب کے۔ پھر کیا تھا میں نے اسکی ناک میں نکیل ڈال کر زندگی کے باگ ڈور کو زیرِ دست کر لیا۔ ابھی تو ابتدائی مرحلہ تھا آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ کسی بھی امر کے شروعاتی دور میں تو مشکلوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔
دل کی دنیا اُتھل، پُتھل ہوئی پڑی تھی، زندگی نے کروٹ بدلی، اور یکایک سارا خرمن جل کر مشت رماد ہوگیا۔ چمن میں شادابی آگئی ہو جیسے، خرمن پہ یوں لگے بجلی کوندی جس نے سارا کا سارا خرمن جلا کر خاکستر کر ڈالا ہو۔ پہلے، پہل تو میں اس امر میں ڈانواں ڈول اور سرگرداں تھا کہ یہ اچانک اور ناگہانی طور پر میرے ساتھ ہوا کیا۔
اس کیفیت سے لاعلمی اور لا شعوری حیرت زدہ کرنے کیلئے بس تھا۔ سخت غور و فکر کے بعد بھی کچھ سراغرسانی ممکن نہ ہوئی۔ دل کی دنیا زیر و زبر ہورہی تھی۔ دل کے ایک نرم گوشے میں یہ کیفیت دھیرے، دھیرے اپنی جگہ اختیار کر رہی تھی۔ خیالات و تصورات سے ماوراء تھا یہ معاملہ۔ دل کی اضطرابی اور ہیجان اس یک لخت پیدا ہونے والی کیفیت سے بڑھتی ہی جارہی تھی۔ کیا کروں سمجھنا کچھ دشوار ہی ہوتا جا رہا تھا۔
اسی خیال میں غم سم سا رہنے لگا، ربط ٹوٹنے کے درپئے ہوگئے۔ احباب سے لاتعلقی اختیار کرلی اور اپنا ہی ہوکر رہ گیا۔ کیا کرتا اس کا اظہار بھی کسی سے نہیں کرسکتا تھا جب تک مکمل تفصیل سے آگہی اور آشنائی نہ ہوجاتی۔ اور اس کی اضطرابی بڑھتی ہی جارہی رہی تھی۔ خیر یہی سوچ کر میں نے سب سے الگ تھلگ اپنا ایک نشیمن بنا لیا تھا۔ اب کیا تھا جب اس کی شدت و ہدت کو برداشت نہ کر سکا اور صبر و ضبط نے جواب دے ہی دیا پھر کیا تھا مہر سکوت ٹوٹ ہی گئی۔
ارے ہاں
آپ پریشان ہو رہے ہوں گے میری مراد کیا ہے؟
آخر وہ کون سی کیفیت ہے جس سے دوچار ہوں میں؟
وہ کیا ہے جس نے دل کی دنیا تک کو اپنے طلسم سے مسحور کر رکھا ہے؟
وہ کیا چیز ہے جس نے خصوصاً دل ہی کو اپنا نشیمن بنا بنانا بہتر سمجھا؟
کیا معاملہ ہے ہم بھی جاننا چاہتے ہیں۔ ہماری بھی اضطرابی کا یہ مسئلہ سامان ہے۔ اس کو حل تو کریں، اور بات واضح تو کریں۔ خیر سنیں پھر سارے سوالوں کا ایک ہی جواب ہے۔ آپ کو بتائے چلتا ہوں، اور آپ کی اضطرابی کو بھی دور کئے دیتا ہوں۔ بہت زیادہ غور خوض کرنے کے بعد ایک ہی نتیجہ نکلا جو مثل غنودگی طاری ہوا، اور میٹھی نیند کے مثل اس کی شیریں حلاوت پورے روم روم میں گھلنے لگی۔
ارے ہاں یہ کیفیت عشق کی کیفیت تھی، اب آپ ضرور اسی بات کی طرف رجوع کریں گے کہ لگتا ہے، فلاں شخص پر کسی دوشیزہ کے حسن کا جادو چل گیا ہے۔ اور کسی مہ جبین کے ناز و ادا کا سحر طاری ہوگیا ہے۔ عادت بھی اسی پر جاری ہے۔ مگر آپ سے التجاء ہے کہ اپنی اس کج فکری سے دوری اختیار کریں، اور میری باتوں پر توجہ دیں۔ دراصل میں عشقِ حقیقی کی بات کرہا ہوں۔
اب کیا تھا عشق نبی کا شمع تو ہر مسلمان کے دل میں جلتا ہی رہتا ہے۔ مگر جوں جوں ایمان کو جلا اور ترقی ملتی ہے، توں توں عشقِ نبی کا شمع فروزاں اور فزوں تر ہوتا جاتا ہے۔ آقا کی محبت ہی اصل ایمان ہے۔ گویا اللہ کے نبی ﷺ نے خود اس کی تصریح یوں فرمائی "لا یومن أحدكم من والدہ و ولدہ والناس أجمعين” یاد رہے مومن وہ ہے جو رسول ﷺ سے ماں باپ، اولاد غرضیکہ دنیا و مافیھا و ما وراءھا سے بڑھ کر محبت کرے۔
ارے ہاں میں نے یہ نہیں بتایا کہ اس واقعہ کا پس منظر کیا ہے۔ تو سنیں میں سیرتِ رسول اللہ ﷺ علیہ وسلم کا مطالعہ کر رہا تھا، جس سے دل میں ایک نرمی کا احساس ہورہا تھا۔ اور کیفیت متذکرہ کا دل پیکر بنتا جارہا تھا۔ شاید یہی محبت ہے، شاید یہی ایمان کی ترقی ہے، خیر ہم محبت کا حق تو کما حقہ ادا نہیں کر سکتیں۔ مگر ہاں جتنا ہمارے بس میں ہے کم از کم اتنا تو کر ہی سکتے ہیں۔
اور سنیں !!! اس کیفیت سے دل کبھی عاری نہ پائے۔ عشق رسول کا شمع بجھنے نہ پائے۔ دل کو جلا ملتی رہے گی، اور یہ لو پھڑکتی رہے گی۔ جب تک دل کا انسلاک محبت رسول سے رہے گا اس وقت تک دل حقیقت میں دل ہوگا ایک بات اور اس محبت کو حرز جاں بنا لیں یوں جیسا امام نے تاکید کری کہ۔
جان ہے عشق مصطفی روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزہ ناز دوا اٹھائے کیوں
جب عشق کا انسلاک دل سے ہوجائے گا مکمل طور سے تو مت پوچھئے بختی کی ارجمندی کا عالم کیا ہوگا۔ ایسے دل کے تو عرش والے بھی قربان اور فرش والے بھی۔ خیر بات طول پکڑ رہی ہے۔ کہنا یہ تھا کہ اگر عشق رسول کی شورش میں جلنا ہو تو سیرت النبی ﷺ کا مطالعہ کرتے رہیں اور دل کو جلا بخشتے رہیں۔
جب آپ رخ زیبا کو پڑھیں گے، جب آپ گیسوئے اقدس کو پڑھیں گے، جب آپ دندان مبارک کو پڑھیں گے، جب آپ لب انور کو پڑھیں گے، جب آپ چہرۂ انور کو پڑھیں گے، جب آپ آپ ﷺ کی آنکھوں کو پڑھیں گے، جب آپ بینی مبارک کو پڑھیں گے، جب ید اقدس کو پڑھیں گے، جب آپ سینۂ اطہر کو پڑھیں گے، جب آپ بدن بشری میں ملبوس جلوۂ نور کی زیبائی پڑھیں گے، جب آپ پاؤں مبارک کے حوالے سے پڑھیں گے، الغرض جب آپ حضور کے ایک، ایک عضو معطر و مطہر اور مظہر حق کو پڑھیں گے تو یکلخت دل یہی کہے گا۔
چلو عشق کریں !!!
چلو عشق کریں !!!
چلو ان کے اوصاف و کمالات کو پھر سے پڑھیں تاکہ محبت کو دوبالا کیا جائے اور دل کی شمع کو عشق رسالت سے جلا بخشیں۔ دل عشق رسول سے سرشار ہوجائے۔ حاصل یہ کہ اگر کہیں دل برگشتگی اور آشفتگی کے آپ شکار ہوں تو ایک ہی دوا ہے۔ عشق مصطفٰی۔ عشق مصطفٰی !!! ﷺ
راقم الحروف: محمد اختر رضا امجدی
متعلم جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو