تحریر: عاصم طاہر اعظمی
7860601011
نئے سال کی آمد آمد ہے اور ہرکوئی جشن کا ماحول بنا رہا ہے ساری دنیا میں لوگ اس موقعے کو اپنے اپنے انداز سے منانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں مہینوں بھر کی کمائی کو دوسرے شہروں میں جا کر اڑانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے پھر دعوتیں اڑائی جاتی ہیں، رقص و سرور کی محفلیں سجتی ہیں جہاں شراب شباب کباب جمع کیے جاتے ہیں ، مبارکباد کے پیغامات کا تبادلہ ہوتا ہے، کہیں دید کے متلاشی من کی مراد پاتے ہیں تو کہیں ایس ایم ایس سے ہی کام چلا لیا جاتا ہے بہر حال ہر کوئی اپنے اپنے انداز سے نئے سال کو خوش آمدید ضرور کہتا ہے اس تیاری میں اربوں کی فضول خرچی ہوگی اگر ان فضول اخراجات کوجوڑا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ امت کا جان مال وقت بڑی مقدار میں کہاں صرف ہورہا ہے۔۔!!اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر انہیں یہ کیوں معلوم نہیں کہ مسلمانوں کا دن تو سورج غروب اور رات کے آغاز سے شروع ہوتا ہے … یہی وہ وقت ہوتا ہے کہ جب ہلال کی رویت ہوتی ہے۔ کیا یہ لوگ اسی حساب کتاب سے رمضان المبارک، عیدالفطر، عید الاضحیٰ نہیں مناتے؟ جی ہاں مناتے ہیں تو پھر انہیں آج یہ کیا ہو گیا ہے کہ یہ شراب کی بوتلیں اٹھائے، چرس کے سگریٹ سلگائے رقص کی مستی میں ہاتھ اٹھائے، جھومتے گاتے نظر آ رہے ہیں انہیں کس بات کی خوشی ہے؟ کیا انہیں معلوم نہیں کہ ان کے حساب سے سہی لیکن آج تو ان کی زندگی کا ایک سال کم ہوا ہے اور ان کے قدم قبر کے مزید نزدیک ہو گئے ہیں کیا یہ اس سے بے خبر ہیں؟ جواب ملے گا ہر گز نہیں۔ ہر گز نہیں… یہ سب جانتے ہیں… لیکن ان کی آنکھوں پر عیش و مستی کی وہ پٹی بندھ چکی ہے کہ جو انہیں کچھ اور دیکھنے ہی نہیں دیتی…
دُنیا بھر میں نئے سال کے جشن بہت سے مختلف طریقوں سے منائے جاتے ہیں ان جشنوں کی شروعات کے بارے میں دی ورلڈ بُک انسائیکلوپیڈیا میں یوں بیان کِیا گیا ہے:
”سن ۴۶ قبلِ مسیح میں رومی قیصر جولیس نے یکم جنوری کو سال کا پہلا دن ٹھہرایا،اس لیے جنوری کے مہینے کا نام جانس دیوتا کے نام پر رکھا گیا اس دیوتا کے دو چہرے تھے، ایک چہرے کا رُخ آگے کی طرف اور دوسرے کا پیچھے کی طرف تھا۔“ اس بیان سے پتا چلتا ہے کہ نئے سال کے جشن اصل میں بُت پرستی سے تعلق رکھتے ہیں
اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے بہت سے دیگر ممالک کی طرح وطن عزیز میں بھی 31 دسمبر کی رات کو آتش بازی اور جشن مناتے ہیں، عیش و نشاط کی محفلوں اور رنگ برنگے سے نئے سال کا آغاز کرتے وقت یہ بھول ہی جاتے ہیں کہ
غافل تجھے گھڑیال دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور بیتادی
ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ دنیاوی زندگی تو فانی ہے جو گنتی کے چند سالوں پر محیط ہے جس میں ہم لامحدود خواہشات اور آرزوؤں کے جال میں ایسے جکڑتے ہیں کہ وقت مرگ ہی ہوش آتا ہے کہ
عمر دراز مانگ کر لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
(بہادر شاہ ظفر)
اے فانی بشر!
کبھی دسمبر کے آخری دنوں میں اپنے بیتے برس کا احتساب بھی کیا ہے کہ خالقِ جہاں نے ہمیں اس سال میں کن کن نعمتوں سے نوازا؟ اور پھر بھی کہاں کہاں اس کی حکم عدولی کا مرتکب ہوئے؟ ہمارا ہر آنے والا سال ہمیں ابدی منزل کے قریب لے جارہا ہے جہاں ہم سے ہر چیز کا حساب لیا جائے گا، اس جہانِ انتظار میں قدم قدم پر دفاتر ماہ و سال یوم و ہفت کھل جائیں گے، کتاب عمر کے ہر برس کے ورق الٹ جائیں گے تو کیا جشن سال نو کی محفلوں کے تذکرے ہمیں بچا پائیں گے، نہیں ہرگز نہیں بچا پائیں گے .
اے نئے سال بتا، تُجھ ميں نيا پن کيا ہے؟
ہر طرف خَلق نے کيوں شور مچا رکھا ہے
(فیض لدھیانوی)
ہمارا گزشتہ سال تو گزر گیا جب کہ امت محمدیہ مصائب و مشکلات میں پھنسی ہوئی ہے طرح طرح کے فتنوں میں مبتلا ہے اسے بہکانے کی چیزیں عام ہیں وہ طرح طرح کے امتحانات سے دو چار ہے اور یہ سب اشیاء افراد امت سے اور ابناء اسلام سے فوری حل چاہتی ہے کہ وہ عزم صادق اور پختہ ارادہ کریں کہ انفرادی طور پر بھی ، معاشروں کی سطح پر بھی اور حکام و امراء کیا اور عوام و محکوم کیا ہر سطح پر اور ہر شخص اپنی اپنی اصلاح کرے گا اور یہ اس یقین کےساتھ کہ ہم میں سے کسی کواس بات میں کوئی شک نہیں کہ امت کی ناک میں دم کر دینے والوں ان بحرانوں اور تباہ کن حالات سے نجات کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم صاف ستھرے اور حقیقی اسلام کو لیں، وہ خالص اسلام جو قرآن کی شکل میں نازل ہوا ہے جسے پوری کائنات کے سردار نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم لے کر آئے اور جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھا تھا،
جی ہاں ! صاف ستھرا اور حقیقی اسلام وہی ہے جو ہماری زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہو ہر شعبے کے لئے تعلیمات مہیا کرتا ہے
ہمارے یہاں وقت کی قدر و قیمت اتنی ہی ہے کہ اُسے کس طرح ہنسی مذاق اور کھیل کود میں صرف کر دیا جائے، معاشی اور معاشرتی ذمہ داریوں کو بھی نبھایا جائے دینی فرائض کے لیے وقت نکالنا تو ایک خواب پارینہ سی چیز ہو چکی ہے اور اضافی طور پر یعنی نفلی طور پر اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی رضا مندی کے کام تو ایک لا شعور میں بسنے والا ایک خیال ساہو چکے، ولا حول ولا قوۃ اِلا باللہ!
قارئین کرام، میر ی اِن گزارشات پر برُا مت منائیے گا، اور نہ ہی انہیں تنگ نظری، قدامت پرستی اور مولویت کے غِلافوں میں لیپٹ کر پرے ہٹآئیے گا، میں اِن سب کمزرویوں کا ذِکر اپنی ذات کو شامل کر کے کر رہا ہوں۔
آئیے، آنے والے نئے سال پر خوشیاں منانے اور اس کے بارے میں منصوبہ بندیاں کرنے سے پہلے گزرے ہوئے سال میں اپنے کیے ہوئے پر کچھ دیر کے لیے نظر کرتے ہیں کہ ہماری زندگی کا ایک اور بدقسمت سال بیت گیا ہمیں موت کے ایک سال قریب کر گیا۔ اِس دنیا کے عارضی قیام کی مدت میں سے لگ بھگ تین سو پینسٹھ دن کم ہو گئے اور مستقل زندگی والی آخرت کے قریب ہوگئے،
آئیے ہم عزم کریں کہ اب کی بار سال ِنو کی ابتداء نیکی، بھلائی اور فلاح کے کاموں سے کریں گے۔ مغرب کے طرز زندگی اور ان کی تہذیب کا مکمل بائیکاٹ کر کے ایک بامقصد زندگی گزارنے والے انسان بنیں گے اور ساتھ ساتھ گذشتہ سال کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی تلافی کا پختہ ارادہ بھی کریں گے