تحریر: ظفرالدین رضوی، ممبئی
کسان ہمارے وطن عزیز ہندوستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے اگر یہی بے بس ولاچار ہوگیا تو دیش کی ترقی خطرے میں پڑ جائے گی کسان کی حوصلہ افزائی کرنا اوراس کے لئے شکریہ کےالفاظ بولنا یہ سب اس کی ہمت کو جوان کرنے کا بہترین طریقہ ہے جوشب وروز اپنی ان تھک محنت و کوشش کے ذریعہ کھیت سے ہمیں صاف ستھرا اناج نکال کر دینے کا کام کرتا ہے اسکو طاقت کے زور پر دبانا بہت بڑابذدلانہ کام ہے اگر یہ کسان آپ کی طاقت کے سامنے بے بس و مجبور ہوگیااور اپنا ہل لیکر گھر میں بیٹھ گیا تو یقین کرلیں کہ ہم دانے دانے کے محتاج ہوجائیں گے پھر مغرور کواپنی طاقت و قوت کا اندازہ ہوجائےگا کہ وہ کتنے پانی میں ہےابھی بھی وقت ہے صاحب اقتدار کیلئے کہ وہ کسانوں کی مانگوں پر غور کرے اور انکی باتوں کو سنے انکے خلاف طاقت کا زور بند کرے اور جو سیاہ قانون ان کے حق میں نہیں ہے اسے فورا ہٹائےآج کسان اتنی سردی اورکروناوائرس جیسے خطرناک ماحول میں بھی اپنی جائز مانگوں کو لیکر سڑکوں پر کھلے آسمان کے نیچےبیٹھے ہوئے ہیں یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ایک طرف کہرے والی سردی تو دوسری طرف کروناوائرس جیسی وباء ایسے ماحول میں کسانوں کا گھر سے نکل کر سڑکوں پر آنا اس بات کی غمازی کرتاہے کہ وہ موجودہ حکومت سے بہت زیادہ دکھی اورخفا ہیں میں مرکز کی موجودہ حکومت سے اپیل کروں گا کہ جتنا جلدی ہوسکے کسانوں کی مانگیں پوری کرے اور جو سیاہ قانون ان کے اوپر مسلط کیا جارہاہے اسے ہٹانے کی بھرپور کوشش کرے نہیں تو کسان سڑکوں پر اپنی مانگیں لیکر میدان میں ڈٹا رہے گا اور کھیت چڑیا جگ جائے گی اناج آنا بند ہوجائے گا لوگ بھکمری کے شکار ہوجائیں گے یہ الزام پھر آپ کے سر جائےگالہذاآپ ان کا درد سمجھیں اور کسانوں کی مانگیں پوری کرکےانکے گھر جانے دیں تاکہ کھیت ہرےبھرے دیکھائی دیں مجھے امید ہے کہ مرکزی حکومت فورا انکی سنوائی کرے گی اور آخیرمیں ایک بات عرض کرتا چلوں کہ جنکو کسانوں سے ہمدردی نہیں محبت نہیں،کھیتوں سے جتنی چیزیں پیدا ہوتی ہیں ان کا کھانا انہیں بند کردینا چاہئے،جو کسان کا نہیں وہ دیش کا وفادار نہیں،دیش کی اصلی ترقی کسان ہے،کسان زندہ ہے تو اناج ملے گا وہ نہیں تو اناج نہیں ملے گا کسان ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے