تحریر: محمد اشرف رضا قادری
مدیر اعلیٰ سہ ماہی امین شریعت
بریلی شریف
کسی بھی شاعر کے شعر و سخن اور فکر و فن کی خوبی ، زبان و بیان کے حسن و دلکشی پر موقوف ہے۔ شاعری محض الفاظ کی نشست و برخواست ، ردائف و قوافی کے التزام اور مروجہ اوزان و بحور کی پابندی کرتے ہوئے صرف اشعار موزوں کرنے کا نام نہیں ۔ شعر وہی ہے جس میں شعریت اور معنویت پائی جائے اور شاعری وہی ہے جس میں ساحری کی کیفیت پائی جائے ۔ شاعری کے حسن کو دوبالا کرنے اور اس جام کو دو آتشہ کرنے والی چیزیں یہ ہیں :
فکر و تخیل ، مضمون آفرینی و معنیٰ آفرینی ، حسنِ کلام و زورِ بیان ، تشبیہات و استعارات ، صنائع لفظی و معنوی ، اصلیت و واقعیت ، باریک بینی ، جذبات نگاری ، محاکات ، دقت نظر ، فلسفیانہ نکات ، مضامینِ تصوف کی شمولیت ، مرقع نگاری ، منظر نگاری ، وفورِ جذبات ، قرینۂ اظہار ، سوز و گداز وغیرہم ۔ ان خوبیوں کی وجہ سے ہی کسی شاعر کی شعری کاوش صحیح معنوں میں شاعری کہلاتی ہے ۔
ان شعری محاسن کی جلوہ گری دیکھنی ہو تو امام احمد رضا خان محدث بریلوی کی نعتیہ شاعری کا بغور مطالعہ کریں ۔ ان تمام شعری محاسن پر روشنی ڈالنا ممکن نہیں ۔ لہٰذا یہاں ان میں سے چند گوشوں کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے ۔
شاعری میں کلام کے حسن کو دوبالا کرنے کے لیے شاعر مختلف پیرایۂ بیان کا سہارا لیتا ہے اور وہ مضمون آفرینی ، معنیٰ آفرینی اور خیال آفرینی کے زیور سے اپنے کلام کو مرصع کرتا ہے۔ معنیٰ آفرینی ، خیال آفرینی ، مضمون آفرینی ، ندرتِ بیان ، نادرہ کاری ، تازہ کاری ، جدتِ ادا اور لطافتِ الفاظ و معانی یا اس قسم کے دیگر الفاظ و تراکیب تقریباً متحد المعنیٰ ہیں یا پھر قدرے فرق و امتیاز کے ساتھ ایک ہی حقیقتِ کلی کے مختلف مظاہر ہیں ۔ کلامِ رضا میں ان اوصاف کے حامل بیشمار اشعار ہیں ۔ مثال ملاحظہ کریں :
معنیٰ آفرینی و مضمون آفرینی :
تابِ مرآتِ سحر گردِ بیابان عرب
غازۂ روئے قمر دودِ چراغانِ عرب
تشنۂ نہرِ جناں ہر عربی و عجمی
لبِ ہر نہرِ جناں تشنۂ نیسانِ عرب
عند لیبی پہ جھگڑتے ہیں کٹے مرتے ہیں
گل و بلبل کو لڑاتا ہے گلستانِ عرب
ہشت خلد آئیں وہاں کسبِ لطافت کو رضاؔ
چار دن برسے جہاں ابرِ بہارانِ عرب
مضمون آفرینی کا مطلب یہ ہے کہ شاعر روایتی مضامین میں سے نئے پیکر ، طرب آمیز اسلوب اور عجیب و غریب پہلو تلاش کر لیتا ہے ۔ ایسے مضامین کی بنیاد شاعر کے والہانہ جذبات اور اس کے بلند تخیل پر ہوتی ہے ۔ حسان الہند حضرت رضا بریلوی نے اس میدان میں اپنی مہارتِ فن اور کمالِ ہنرمندی کا بھرپور ثبوت دیا ہے ۔ اس کے مزید نمونے ملاحظہ کریں :
چمن طیبہ میں سنبل جو سنوارے گیسو
حور بڑھ کر شکنِ ناز پہ وار ے گیسو
کاش آویز ۂ قندیل مدینہ ہووہ دل
جس کی سوزش نے کیا رشک چراغاں ہم کو
خوف ہے سمع خراشی سگ طیبہ کا
ورنہ کیا یاد نہیں نالۂ و افغاں ہم کو
چمن طیبہ ہے وہ باغ کہ مرغِ سدرہ
برسوں چہکے ہیں جہاں بلبلِ شیدا ہوکر
حورِ جناں ستم کیا طیبہ نظر میں پھر گیا
چھیڑ کے پردۂ حجاز دیس کی چیز گائی کیوں
ان کی حرم کے خار کشیدہ ہیں کس لیے
آنکھوں میں آئیں ، سر پہ رہیں ، دل میں گھر کریں
نامِ حق پر کرے محبوب دل و جاں قرباں
حق کرے عرش سے تا فرش نثار عارض
سرِ فلک نہ کبھی تابہ آستاں پہنچا
کہ ابتدائے بلندی تھی انتہائے فلک
دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا
تارے کھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرّہ تیرا
اب تو نہ روک اے غنی عادتِ سگ بگڑ گئی
میرے کریم پہلے ہی لقمۂ تر کھلائے کیوں
مندرجہ بالا اشعار میں زورِ تخیل ، علوئے فکر اور مضمون آفرینی و معنیٰ آفرینی کے ساتھ تشبیہات و استعارات ، محاکات و منظر نگاری ، الفاظ و معانی کا حسن اور اسالیبِ بیان کی ندرت اپنے نقطۂ انتہا پر دکھائی دیتی ہے۔