مذہبی مضامین نبی کریمﷺ

آدابِ بارگاہِ رسالت مآبﷺ (قسط نمبر 12)

از قلم : ابوحامد محمد شریف الحق رضوی ارشدی مدنی کٹیہاری
امام وخطیب نوری رضوی جامع مسجد وخادم دارالعلوم نوریہ رضویہ رسول گنج عرف کوئی ضلع سیتامڑھی بہار انڈیا

حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا بحالتِ نماز ادبِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم
بخاری شریف باب من دخل الیوم الثانی میں حضرت سہل بن ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ حضور اقدس آقائے دوجہاں شہنشاہِ کون ومکاں رحمتِ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بنی عمروبن عوف کے مابین صلح کرانے کے لیے (قبا) شریف تشریف لے گئے اتنے میں نماز کا وقت ہوگیا – تو مؤذن نے حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ آپ لوگوں کی امامت کریں – تو میں اقامت کہوں – حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اثبات میں جواب دیا – پھر وہ لوگوں کو نماز پڑھانے لگے – حضور اقدس سیدِ دوعالم احمد مجتبیٰ محمد مصطفٰے محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اثنائے نماز میں تشریف لے آئے – اور صفوں میں ہوکر آگے بڑھتے ہوئے پہلی صف میں کھڑے ہوگئے – لوگوں نے تالی بجائی – حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نظر اٹھا کر محبوبِ کریم رسولِ عظیم رؤوف ورحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھا – حضور اقدس رحمتِ عالم شفیعِ اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی جگہ ٹہرے رہو اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیچھے ہٹ کر صف میں کھڑے ہوگئے ‘ اور حضور اقدس مختارِ دوعالم مالکِ کل کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے اور نماز پڑھائی – جب نماز سے فارغ ہوگئے تو فرمایا :
” يا ابابكر ما منعك ان تثبت اذا امرتك "
یعنی اے ابوبکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) جب میں (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے تجھے اپنی جگہ ثابت قدم رہنے کو کہا تو کیوں نہ رہا –
تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا :
” ماكان لابن ابی قحافة فيصلی بين يدی رسول الله صلي الله عليه وسلم "
(منصبِ رسالت کا ادب واحترام ‘صفحہ 29/ 30/ بحوالہ بخاری شریف جلد اول صفحہ 94/ باب من دخل الیوم الثانی )
یعنی ابوقحافہ کے بیٹے کی مجال نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نماز پڑھائے۔

مقامِ غور!!!
غور کرنے کا مقام ہے کہ ایک طرف حضورِ اقدس آقائے دوعالم شہنشاہِ دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا حکم ہے اور دوسری طرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بظاہر نافرمانی اور عدول حکمی کہ حکم کے باوجود از راہِ ادب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مصلئی امامت پر نہ رہے بلکہ پیچھے ہٹ گئے – اس سے ثابت ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تقاضائے ادب کو ترحیح دی – اور بظاہر اس عدول حکمی کو برا نہ سمجھا جس سے صاف واضح ہے کہ جس حکم عدولی سے حکم دینے والے کی عظمت وشان ظاہر وہ جائز بھی ہے اور قابلِ قدر ولائقِ تحسین بھی – ورنہ کیا کوئی کہنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ جلیل القدر صحابی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کا رتبہ انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ ہے – انہوں نے حضور اکرم سید دوعالم حاکمِ کل کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم کو نہ مان کر معاذاللہ حضور اقدس رحمتِ دوعالم شہنشاہِ دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تحقیر کی – اور نہ کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ناراضگی کا باعث تھی – کیونکہ حضور اقدس رحمتِ عالم نورِ مجسم شفیعِ معظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے ہٹنے کے بعد نماز پڑھائی ‘ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب پر کوئی خفگی ظاہر نہ کی لہذا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طرزِ عمل سے ثابت ہوا کہ جہاں حکم عدولی ادب اور تعظیم وتوقیر پر منحصر ہو وہاں مقتضائے ادب کو اپنانا زیادہ بہتر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے