(جراُتِ اظہار)
اس خاک دان گیتی پراللہ تعالی نے مختلف رشتے پیدا فرمائےہیں۔انہیں رشتوں میں استاد اور شاگرد کا رشتہ بہت اہم اور مضبوط تر مانا جاتاہے،جو ابتدائے آفرینش سے لے کر اب تک چلا آرہا ہے۔یہ رشتہ اپنی بےلوث غیر معمولی خدمات کے باعث بہت ہی پاکیزہ اور انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔تمام مذاہب میں اس رشتے کو پاک اور باعظمت کہا گیا ہے۔ سماج و معاشرے میں بھی اس کو بزرگی اور برتری حاصل ہے۔حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزماں جناب احمد مجتبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیائے کرام کو اللہ رب العزت نے اس مبارک وصف سے متصف فرمایا ہے،جس کے ذریعہ یہ حضرات اپنے اپنے دور میں لوگوں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سبق پڑھاتےرہے اور انہیں تاریکی اور جہالت کی دنیا سے نکال کر علم وادب کی زندگی فراہم کرتےرہے۔قرآن حکیم میں ہے:
ترجمہ:اور نبی ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا تزکیہ اور تربیت کرتے ہیں۔
ایک حدیث شریف میں خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔
یقینا استادی اور معلمی نہایت باوقار اور اعلی پیشہ ہے مگر جس قدر استاد کی اہمیت اور عظمت بلند ہے،اسی قدراستاد کے فرائض اور ذمہ داریاں بھی عظیم تر ہیں۔ایک استاد صرف استاد ہی نہیں ہوتا بلکہ اپنے شاگردوں اور ساتھ ساتھ سماج کے لیےآئیڈیل اور ہیرو ہوتا ہے۔طلبہ کی زندگی پر اساتذہ کے حرکات وسکنات بہت گہرے اثر چھوڑتے ہیں۔اسی وجہ سے ترقی یافتہ اور مہذب قوموں اور معاشروں میں استاد کو ایک خاص مقام اور اعلی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔
یہ بات بھی مسلم ہے کہ استاد اور شاگرد کے رشتہ کو تقریبا وہی مقام حاصل ہے جو باپ اور بیٹے کے رشتہ کو میسر ہے۔ظاہر سی بات ہے اس کی وجہ صرف اتنی سی ہے کہ والدین بچے کو بظاہر دنیا میں زندگی دینے کا سبب بنتے ہیں جب کہ استاد انہیں ‘دنیا میں ایک کامیاب زندگی کیسے گزاریں’کاہنر اور گر بتا تے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ استاد کو سماج ومعاشرہ میں عزت واحترام اور انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
یہ بھی ناقابل انکار حقیقت ہےکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جس طرح سے دیگر رشتوں کے درمیان دوری اور بدمزگی پیدا ہوئی ہےوہیں پر استاداور شاگرد جیسے پاک اور مضبوط رشتے کا تقدس بھی پامال ہوا ہے۔اس کے پچھے مختلف وجوہات ہو سکتے ہیں۔لیکن کہتے ہیں نا کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی ہے۔کمیاں اور لاپرواہیاں دونوں طرف سے ہوتی ہیں۔اگر اساتذہ کی سنیں تو وہ طالب علموں کو قصوروار ٹھہراتے ہیں اور اگر طالب علموں کی سنیں تو وہ اساتذہ ہی کو کٹھ گھرے میں کھڑا کر دیتے ہیں۔لیکن صحیح بات وہی ہے جو ہم نے پہلے عرض کیا کہ اس جرم میں دونوں برابر کے شریک وسہیم ہیں۔ہاں یہ اور بات ہے کہ ذمہ دار ہو نے کی حیثیت سے استاد زیادہ قصوروار ہے۔کیوں کہ ایک استاد معاشرے کی عمدہ اقدار کا امین و نگہبان ہونے کے ساتھ ساتھ ان اقدار کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کا ذریعہ بھی ہوتا ہے۔ اساتذہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں اگر ذرہ برابر بھی چوک جائیں تو معاشرہ کی بنیادیں اکھڑ جاتی ہیں اور معاشرہ حیوانیت، نفس پرستی اور مفاد پرستی کی تصویر بن کر جہنم کا نمونہ پیش کرتا ہے۔بے شک استاد کا مقام والدین کے برابر ہےمگر یہ صرف یک طرفہ نہیں ہے بلکہ شاگرد بھی استاد کے لیے ایسے ہی ہیں جیسے ان کے خود کی اولاد۔کیوں کہ "استاد کا مرتبہ والدین کے برابر ہے” یہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اساتذہ بچوں کی تعلیم وتربیت اور نگہداشت ایسے ہی کریں جیسے وہ اپنے خود کے بچوں کی کرتے ہیں۔ان کے مستقبل کی تابناکی کے لیے اسی قدر فکر مند اور بے چین رہیں جس قدر اپنے صاحب زادوں کےروشن مستقبل کے تئیں مظرب اور بے قرار رہتے ہیں۔کیوں کہ اگر استاد کے اندر بچوں کے مستقبل کے تئیں ڈھڑکنے والا دل نہیں ہے تو میرے خیال سے وہ صحیح معنوں میں استاد کم خطرناک زیادہ ہے۔امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ان کے عزیز شاگرد حضرت امام یوسف ؒرحمة اللہ نے پوچھا کہ ’’ استاد کیسا ہوتا ہے؟‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’استاد جب بچوں کو پڑھا رہا ہوتو غور سے دیکھو ،اگر ایسے پڑھا رہا ہو جیسےاپنے بچوں کو پڑھاتا ہے تو استاد ہےاور اگر "لوگوں کے بچے”سمجھ کر پڑھا رہا ہے تو استاد نہیں ہے۔‘‘امام اعظم ؒ کے اس قول کی روشنی میں اگر اساتذہ کو پرکھا جاے تو ان کے اندراخلاص اور نیک نیتی کم مادیت اور مفاد پرستی زیادہ دکھے گی جو ایک اچھے استاد کے لیے کینسر سے کم نہیں ہے۔
یہ رہا ایک رخ کا بھیانک چہرہ۔اب آئیےاستاد کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ طبقہ بھی آپ کو زیادہ مظلوم ہی دکھائی دے گا ۔کیوں کہ تعلیم انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کر تی ہے اور انسان کو معاشرے کا ایک فعال اور اہم جزو بننے میں مدد فراہم کرتی ہے۔استاد کو افراد سازی کے فرائض کی ادائیگی کے سبب معاشرے میں کیا اسے اس کا جائزمقام فراہم کیا جانا ضروری نہیں ہے؟معاشرتی خدمات کی ادائیگی کے سبب معاشرہ نہ صرف استادکو اعلیٰ اور نمایا ں مقام فراہم کرے بلکہ اس کے ادب اور احترام کو بھی ہر دم ملحوظ خاطر رکھےاور اس کی پرخلوص خدمات کا اسے اچھاصلہ اور بدلہ پیش کرے۔سب کی ضرورتیں برابر ہیں۔یقیناصحیح تعلیم وتربیت کے فرائض انجام دیناایک استاد کی بنیادی ذمہ داری ہے۔لیکن ساتھ ساتھ خوش حال زندگی گزارنے کے لیے انہیں سامان ضرورت مہیا کرانا یہ بھی ہماری معاشرتی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔
عزیزو! استاد قوموں کے محسن اور محافظ ہوتے ہیں۔انہیں،ان کا مناسب حق اور بنیادی ضرورتوں کو بہم پہنچانا یہ ہماری اورقوم کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔کیوں کہ تعلیم وتربیت کے فرائض انجام دینا ایک نازک اورنہایت مستعدی کا کام ہے جس کے لیے بڑے اطمینان اور سکون کی ضرورت ہے۔اور اساتذہ کرام بھی’منصب پیغمبری’ جیسے عظیم عہدہ پر فائز ہونے کی وجہ سے خود اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کا ادراک کریں اور طلبہ کو ایک اچھا انسان بنانے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر قوم وملت کے سینکڑوں مسائل کے تئیں ڈھڑکنے والا دل پیدا کرنے کا کام کریں۔
یوم اساتذہ کے پر بہار موقع پر راقم اپنے تمام اساتذہ کے لیے اللہ رب العزت سے دارین کی سعادتوں کا طلب گار ہے.بالخصوص ماضی قریب میں اپنے جگرپارے مرحوم مولانا انواررضا فیضی کے ساتھ ایک سڑک حادثہ میں شہید حضرت مفتی نظام الدین احمد نوری رحمة اللہ علیہ کے لیے اللہ کریم کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ مولی دونوں حضرات کو غریق رحمت فرماے اور ان کے درجات کو بلند فرماکر ہم سب کو فیضان اساتذہ سے مالامال فرماے !آمین
تحریر: نعیم الدین فیضی برکاتی
اعزازی ایڈیٹر: ہماری آواز مہراج گنج
پرنسپل:دار العلوم برکات غریب نواز احمد نگر کٹنی (ایم۔پی)