ازقلم: عبدالحکیم نوری ناطقؔ مصباحی
سدھارتھ نگر یوپی انڈیا
بےچارےبیرسٹر اسدالدین کاجب اتر پردیش کادورہ ہوتا ھے تو سیکولرزم کی دہائی دینے والے یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ حیدرآباد سے یوپی الکشن لڑنے کیوں آگئے انھیں حیدرآباد ہی میں رہنا چاہئے
بیچاروں کو پتہ نہیں کہ وہ الکشن لڑنے نہیں آتے دوسرے۔ صوبہ میں الکشن لڑنے وہ جاتا ھے
جسے یقین ہو تا ہے کہ ہم اپنے صوبہ میں الکشن لڑینگے تو ہار جائگے جیساکہ تجربہ سے ثابت ہے اویسی صاحب لکھنؤ بنارس جاتے ہیں مگر الکشن لڑنے نہیں جاتے حیدرآباد سے جیتتے رہتے ہیں وہ ایک پارٹی کے سربراہ ہیں پورے ھندوستان میں الکشن لڑاسکتے ہیں صرف ایک شخص پر اعتراض کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ معمولی الشن کے پرچار لیے ایک ہی پارٹی کے بڑے نیتا حیدرآباد میں ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے اس پر کسی کو اعتراض نہ تھا
یہ بھی بڑا المیہ ھے کہ وہ مسلم جوان جوکسی کا چاٹو کار نہ رہا ہو وہ ایم آئی ایم پر قر بان ھے مگر بوڑھےاور جوان چاٹو کار الزام لگانے میں مسرور ھیں جس کی بی ٹیم کہتے ہیں اسنے ایف آئی آر اوراسکے حامی جانی حملہ کرنے میں کوئی موقع ضائع نہیں کیا ہے
اور یہ بھی کہتے رہتے ہیں کہ فلاں پارٹی کو ہرانے آےء ہیں یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ فلاں فلاں پارٹی حکومت میں رہنے کے باوجود باون سترہ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں انکا ووٹ ختم ہو گیا ہے انکی برادری دوسری کی طرف جاچکی ہے اگر مسلمان انھیں ووٹ نہ دیتا تو پچاس اور سترہ سیٹیں انکی جھولیوں میں نہ جاتیں
فریب ذھنی کہ ہم پھر واپس آرہے ہیں آنا تھا تو گےء کیوں جس کی وجہ سے آپ کی برادری الگ ہوئ تھی وہ وجہ آج بھی باقی ہے دوسرے کو بے وقوف سمجھا بے وقوفی ھے
بے وقوف ہی کلیان سنگھ اور انکے بیٹے اور ساکچھی کو سینے سے لگائے والے کو مسلمانوں کا ہمدر سمجھے گا فلاں فلاں پارٹی کی بے وفائی نے مسلم جوان کو صحیح راہ کی طرف لے جارہی ہے