از قلم: محمد مجیب الرحمٰن رہبر
دنیا میں پائے جانے والے علوم و فنون میں شاعری ایک ایسا منفرد علم ہے، کہ جس کے ذریعے کوئی بھی انسان طویل سے طویل مضمون کو دوچار سطروں میں باسانی کہ سکتا ہے، نیز شخصیات کے تعارف میں جہاں دوسرے لوگ صفحات کے صفحات سیاہ کردیتے ہیں، وہیں شاعر پانچ دس اشعار کے مجموعے میں وہ بات کہ دیتا ہے، یوں تو شاعری کئی اصناف پر مشتمل ہے لیکن ان تمام اصناف میں "صنف نعت ” کا مقام ومرتبہ سب سے منفرد اور جدا گانہ ہے, کیوں کہ دوسری اصناف میں انسان دوسرے موضوعات پر لب کشائی کرتا ہے، مگر صنف نعت میں جب کوئی شخص لب کشا ہوتا ہے تو پھر اس کی زبان سے دنیاء انسانیت کی سب سے عظیم شخصیت، محبوب خدا حضرت محمد مصطفیﷺ کے احوال و اقوال ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پایاں محبت کا اظہار، آپ کے در کی گدا گری کی گہار، آپ کی راہوں کو صاف کرنے کی پکار، آپ جن راہوں سے گزرے ان پر جان قربان کرنے کی تڑپ، جس جگہ آپ نے قدم مبارک رکھا اسے چوم کر آنکھوں سے لگانے کی امنگ، ظاہر ہوتی ہے؛ اور ظاہر ہے فن شاعری کی جس صنف میں محبوب خدا ﷺ سے اس والہانہ لگاو کا بیان و اظہار ہو اس صنف کا مقام کیا ہوگا؟ تاریخ شاہد ہے کہ جس طرح نثر میں لکھنے والوں نے تعریف مصطفی ﷺ کی ہے تو وہیں نظم کے ماہرین نے بھی مصطفی ﷺ کی مدح و ثناء کی ہے، اور آج تک کر رہے ہیں؛
طوالت سے صرف نظر کرتے ہوئے، آمدم بر سر مطلب! جن بندگان خدا نے نظم میں تعریف مصطفی ﷺ کی ہے اور آج بھی وہ اس میں مصروف ہیں، انہیں بندگان خدا میں ایک نام بہت تیزی کے ساتھ افق شاعری پر اپنی چمک پیدا کر رہا ہے اور وہ نام ہے برادر عزیز : محترم عاقب رضا عرف ارقم بریلوی بن توفیق احمد صاحب کا۔
موصوف ضلع بریلی شریف کے قصبہ شیش گڑھ میں ١/١/٢٠٠١ کو پیدا ہوئے, ابتدائی تعلیم مع حفظ قصبہ شیش گڑھ ہی میں ہوئی، اور اس کے بعد اعلی تعلیم کے حصول شوق کے خاطر متھرا پور بریلی شریف میں تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی قائم کردہ عظیم علمی درسگاہ :
” مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعة الرضا ” میں داخلہ لیا اور یہیں پر مشفق و مہربان اساتذہ کی زیر نگرانی اعداد ایہ تا خامسہ مع قراة تعلیم حاصل کی، اور اسی دوران جب فن شاعری کے شوق نے دل کو بے قرار کیا تو فن شاعری کی تعلیم کے لیے استاد الشعراء علامہ ظفر القادری مرکزی صاحب کے ہاں زانوئے ادب طے کیا, اور دیکھتے ہی دیکھتے محض انیس سال کی چھوٹی سی عمر میں عصر حاضر کے شعراء کی توجہ کا مرکز بن گئے, موصوف سے میری شناسائی شوشل میڈیا کے ذریعے ہی ہوئی ہے اور وہ بے انتہا محبت میں تبدیل ہو گئی, ارقم صاحب خود تو اچھے شاعر ہیں ہی ساتھ میں اچھے خاصے نو آموز شعرا کے استاد بھی ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ موصوف وہاٹس ایپ پر ایک گروپ بنام
"محفل شعر و سخن ” کے ناظم ہیں جسے انہوں نے سال رواں بعد رمضان شروع کیا تھا اور اس پر فقیر سے بھی اچھا خاصا مشورہ کیا تھا، شروعات میں تشنگان شاعری کا یہ حلقہ چند افراد پر مشتمل تھا، لیکن ارقم صاحب کی خداداد صلاحیت کی بنیاد پر اب یاران شاعری کی ایک انجمن موجود ہے, جس میں نو آموز بھی ہیں، اور قدماء بھی، بزرگ بھی ہیں اور نوجوان بھی؛ بیک وقت اس علمی انجمن میں علمی بصیرت رکھنے والے مبصرین بھی ہیں، اور اونچی فکر کے حامل مفکرین بھی، نیز تنقید برائے تعمیر کرنے والے ناقد بھی ہیں تو نرم انداز سے اصلاح کرنے والے مصلحین بھی؛ مختصر یہ کہ اس انیس سالہ نوجوان کی کوششوں اور توجہ کی باعث یاران شاعری کا یہ قافلہ خراماں خراماں اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے, موصوف کی اسی محنت و جانفشانی اور لگن کو دیکھ کر عصر حاضر کی چند علمی شخصیات (خلیفہ مفتی اعظم حضرت اولاد رسول قدسی، خلیفہ تاج الشریعہ علامہ رمضان حیدر فردوسی، علامہ ظفر القادری، اور علامہ صدیق کیسر پوری ) کی طرف سے موصوف کو "عزیز الشعراء ” کا خطاب اور حسان الہند مجدد اعظم "جیسے عظیم ایوارڈ بھی نوازا گیا ہے۔
اب آپ حضرات اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان شخصیات کی طرف سے اگر کسی انیس سالہ نوجوان کو یہ خطاب و اعزاز دیا گیا ہے تو اس کی بلندی فکر کا عالم کیا ہوگا؟؟؟
جہاں تک میری بات ہے تو میں تو یہی کہوں گا، کہ ایں سعادت بزور بازو نیست”
ایک بہت ہی پر لطف بات یہ ہے کہ کہ ارقم صاحب کی نعت گوئی اور تنقید و تبصرے کی اہمیت و گیرائی کو دیکھ کر اکثر لوگ انہیں ایک معمر انسان تصور کرتے ہیں، لیکن ان لوگوں کی حیرت اس وقت دیدنی ہوتی ہے، جب وہ ایک معمر انسان کے تصور کو ذہن میں بسا کر پہلی مرتبہ انیس سالہ چھوٹی سی عمر کے بڑے شاعر ارقم صاحب سے ملاقات کرتے ہیں۔
موصوف اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بلند اخلاق اور پاکیزہ کردار کے بھی مالک ہیں، نیز یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ آج کے مہنگائی والے دور میں جہاں انسان ذرا سی بات بتانے پر بھی رقم کا طالب ہوتا ہے، تو وہیں ارقم بریلوی شب و روز تشنگان شاعری کو سیراب کرنے کے بعد بھی ایک روپیے کے خواہش مند نہیں ہیں؛ اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ بے نیازی ہی ان کی عزت و عظمت میں بلندی کی وجہ ہے، موصوف اب تک سو سے زائد نعت و غزل صفحہ قرطاس پر نقل کر چکے ہیں، اس کے علاوہ ایک رسالہ بنام قواعد و عروض زیر تصنیف ہے۔
آئیے موصوف کی رقم کردہ نعتوں سے اخذ شدہ چند اشعار پڑھ کر اپنے قلوب و اذہان کو منور کرتے ہیں!!!
نبی کے عشق سے مملو ہے میرے قلب کا کاغذ
مجھے جنت دلائے گا یہی روز جزاء کاغذ
قلم کو باوضو کرکے زباں سے اللہُ کرکے
نبی کی نعت جب لکھی معطر ہوگیا کاغذ
رقم ارقم نے وصف شاہ خوباں جو کیے اس پر
بصد فرحت قلم کے بوسے لینے لگا کاغذ
سر محشر شہنشاہ مدینہ کی عطاوں سے
رہائ مل گئ مجھ کو گناہوں کی سزا وں سے
ہزاروں آندھیاں آئیں مگر بجھ ہی نہیں سکتے
چراغوں کا تعلق ہے مدینے کی ہواوں سے
کسی کے در پہ جانے کی کوئی حاجت نہیں ارقم
مرا کشکول بھر جاتا ہے آقا کی عطاوں سے
نہ کوئی ساتھی نہ ہمدم نہ آج بھائی ہے
چہار سمت گھٹا نفرتوں کی چھائی ہے
مرے قلم میں یہ جتنی بھی روشنائی ہے
کہ اس کی بوند ہر ایک خون میں نہائ ہے
حقیر نظروں سے نہ مت دیکھ عاقب ارقم کو
یہ کوئی غیر نہیں تیرا ہی فدائی ہے
اللہ تعالی سے دعا گو ہوں مولی ارقم بریلوی صحب کو سلامت رکھے اور اور ان کی فکر و نظر میں مزید پختگی پیدا فرمائے۔۔۔۔
آمین ثم آمین
ماشاء اللہ
بہت خوب صورت تحریر۔
رب العالمین مولانا کو مزید ترقیاں عطا فرمائے.