نتیجۂ فکر: سلمان رضا فریدی مصباحی، مسقط عمان
دنیا کی ہر چال وہی ہے
سال نیا ہے ، حال وہی ہے
زخمی دل اور لب پر آہیں
روتی ہیں دنیا کی آنکھیں
آفت اور جَنجال وہی ہے
سال نیا ہے حال وہی ہے
شمع جلی ، پروانہ مَچلا
کوئ سوز و ساز نہ بدلا
رُت ہے وہی ، سُر تال وہی ہے
سال نیا ہے حال وہی ہے
سوتے ہم ، بیدار شکاری
پَھندے کستے باری باری
گھات وہی اور جال وہی ہے
سال نیا ہے، حال وہی ہے
آپس کی رنجش میں جینا
بغض و تکبر کھانا پینا
روٹی ، چاول، دال وہی ہے
سال نیا ہے ، حال وہی ہے
اپنے ہاتھوں اپنی ذلت
کب سنبھلیں گے اہلِ ملت
کَٹتی ، گِرتی ، ڈال وہی ہے
سال نیا ہے حال وہی ہے
ملک کے حاکم ، ظالم و جابر
تن کے بھولے من کے شاطر
خونی اُن کی تھال وہی ہے
سال نیا ہے حال وہی ہے
دھوکے کھائے ، جان گنوائ
پھر بھی ہم کو عقل نہ آئ
دائم ٹیڑھی چال وہی ہے
سال نیا ہے حال وہی ہے
ہمت والے ، میداں میں ہیں
بزدل گھر کے ایواں میں ہیں
سب کا اِستدلال وہی ہے
سال نیا ہے حال وہی ہے
رب پہ یقیں ، راحت کا گلشن
چھوڑو مت ہمت کا دامن
ہر مشکل میں ڈھال وہی ہے
سال نیا ہے ، حال وہی ہے
بیکس کو دے طاقت مولیٰ
ظالم سب ہوجائیں رسوا
اب بھی اِستِحصال وہی ہے
سال نیا ہے، حال وہی ہے
گر ہم مل کر آگے بڑھتے
عزت ملتی ، غالب رہتے
دوری پھر اِمسال وہی ہے
سال نیا ہے حال وہی ہے
جنوری ہو یا ماہِ دسمبر
سب کا فریدی ! ایک ہی منظر
تفصیل و اِجمال وہی ہے
سال نیا ہے حال وہی ہے