تحریر: میر ابراھیم سلفی مدرس بارہمولہ کشمیر رابطہ نمبر:6005465614
وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر
اہل شعور جانتے ہیں کہ وقت کی قدر و منزلت کیا ہے۔ شریعت اسلامیہ نے وقت کی عظمت کو مختلف پہلوؤں کے ذریعے اجاگر کیا۔ انسان کو نظم و ضبط کا پابند بنانے میں وقت کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ہر کام کا ایک متعین وقت ہوتا ہے اور ہر کام کے مثبت اثرات تبھی ممکن ہیں جب وہ کام صحیح وقت پر ادا کیا جائے۔ قرون اولیٰ کے مسلمان وقت کے معاملے میں کافی غیرت مند تھے۔ وہ دینار و درھم سے زیادہ وقت کے صحیح استعمال کے حریص تھے۔ سلف و صالحین نے اپنی ایک روشن تاریخ رقمطراز کی ہے فقط اس وجہ سے کہ انہوں نے وقت کا صحیح استعمال کیا۔ فرمان ربانی ہے کہ "اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا ہر اس شخص کے لئے جو عبرت حاصل کرنا چاہتا ہے یا شکر ادا کرنا چاہتا ہے”.(القرآن) قرآن میں اللہ عزوجل نے جن نعمتوں کو بطور احسان ذکر فرمایا ہے ان میں وقت کی نعمت عظمیٰ بھی شامل ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ عزوجل نے قرآن مقدس میں متعدد مقامات پر وقت کی قسم اٹھائی ہے۔ واو حلفی کا استعمال کرکے رب کائنات نے کئی ایک مقامات پر مختلف صورتوں سے وقت کا حلف اٹھایا ہے۔ مثلاً والعصر، واللیل اذا یغشی، والضحیٰ، والصبح، والنھار وغیرہ۔سنن ترمذی کی ایک روایت کے مطابق فرمان نبوی ﷺ ہے کہ "تب تک ابن آدم خود کو حساب سے آزاد نہیں کرسکے گا جب تک پانچ نعمتوں کے استعمال کے متعلق اللہ تعالی کو جواب نہ دے، اپنی عمر کے متعلق کہ کن کاموں میں فنا کی، اپنی جوانی کہ کس کی اطاعت میں گزاری، اپنے جسم کے متعلق کہ کس کی فرمانبرداری میں وقف ہوا، اپنے علم کے متعلق کہ کتنی اس پر عمل کی اور اپنے مال کے متعلق کہ کہاں سے کمایا اور کن راہوں میں خرچ کیا”.(اس روایت کی سند میں حسین بن قیس متروک ہے لیکن شواہد کی بنیاد پر یہ روایت حسن درجہ تک پہنچ جاتی ہے)
ابھی ابھی وہ ملا تھا ہزار باتیں کیںابھی ابھی وہ گیا ہے مگر زمانہ ہوا
شعائر اسلام بھی وقت کی عظمت پر دال ہیں۔ قولی، فعلی قلبی عبادات کے متعلق اسلام نے ایک مخصوص وقت مقرر کردیا۔ مثلاً نماز کا ایک متعین وقت ہے، ماہ رمضان کا ایک مقید وقت ہے، حج بیت اللہ کا ایک منفرد وقت ہے، زکواۃ کا ایک مخصوص وقت ہے، اسی طرح ہر قسم کی ظاہری و باطنی عبادات کے لئے ایک مکمل ضابط وقت کو مرتب کردیا گیا ہے۔ اہل عقل وقت کی رفتار سے ہوشیار رہتے ہیں اور اس کی گردش پر نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ قوموں کا عروج و زوال وقت کی قدر اور ناقدری میں پوشیدہ ہے۔ سلف کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ "وقت کی بربادی موت سے زیادہ سخت ہے کیونکہ موت مخلوق کو مخلوق سے جدا کرتی ہے جبکہ وقت کی بربادی مخلوق کو خالق سے جدا کرتی ہے”.ایک اور اینٹ ہماری دیوار حیات سے گر چکی ہے لیکن ہم خواب خرگوش میں سوئے ہوئے جشن منانے میں لگے ہوئے ہیں۔ سلف صالحین کے بارے میں آیا ہے کہ وہ پانچ وقت کی نماز کو "روزانہ کی میزان”، جمعہ کی نماز کو ” ہفتہ کی میزان "، رمضان کے روزوں کو ” سال کی میزان "، اور حج کو ” عمر کی میزان ” قرار دیتے تھے۔ سیدنا حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ سے جید سند سے منقول ہے کہ وہ فرماتے تھے "اے ابن آدم! تمہاری زندگی مجموعہ ایام ہے، جیسے جیسے ایام گزرتے جاتے ہیں، تمہارے زندگی بھی اپنے زوال کی طرف روانہ ہورہی ہے”.لیکن سال کے اختتام پر ہمارا معاملہ اس کے برعکس ہے، ایک تو وقت کی بربادی ثانیاً فحاشی، عریانی، بدکاری، بدکرداری، عصمت فروشی کے بازار گرم کرنا ہمارا شیوا ہی بن چکا ہے۔ رسول ﷺ نے برحق فرمایا تھا کہ "دو نعمتیں ایسی ہیں جنہیں اکثر لوگ ضائع کردیتے ہیں، صحت اور فرصت”.(وسندہ صحیح)
اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کرحالات کی قبروں كے یہ کتبے بھی پڑھا کرہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دےتنہائی كے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
وقت بادلوں کی طرح گزرتا ہے اور ہواؤں کی مانند اڑتا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ "جس روز یہ لوگ قیامت کے دن کو دیکھیں گے تو انہیں یوں محسوس ہوگا کہ یہ دنیا میں بس ایک دن کے پچھلے پہر یا اگلے پہر تک ٹھہرے ہیں”.(سورہ نازعات) خوشی کے ایام گویا تیزرفتاری سے گزر جاتے ہیں اور ایام مصائب گویا دھیرے دھیرے رواں ہوتے ہیں حالانکہ یہ فقط احساس ہے۔ سال 2020 وادی کشمیر کے لئے بالخصوص اور پوری دنیا کے لئے بالمعموم آزمائش کا سال تھا۔ ایک طرف covid-19 کا قہر، دوسری طرف سیاسی و سماجی بحران نے لوگوں کی زندگی بالعموم اور اہل اسلام کی زندگی بالخصوص قید خانے میں محصور کردی۔لیکن ہم اپنی ماضی سے اب بھی سبق نہیں لیتے۔ خسارہ ہے ایسی قوم کے لئے جو اپنے ماضی سے سبق نہیں لیتی اور اپنے مستقبل کا نہیں سوچتی۔حرام خوروں کی حرام خوری دن بہ دن اپنے عروج کو پنچ رہی ہے۔ بے حیائی اور بے شرمی کے انجمن دن بہ دن مزین ہوتے جارہے ہیں اور دوسری طرف انسانیت کا قتل عام ، سرعام ہورہا ہے لیکن ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے، شاید کہ ہم نے اپنے ضمیر کو فروخت کردیا ہے۔ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔۔۔۔ لیکن یہ بات ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔
آگ ہو تو جلنے میں دیر کتنی لگتی ہےبرف کے پگھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
چاہے کوئی رک جائے، چاہے کوئی رہ جائےقافلوں کو چلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
آدمی اپنی عمر کی پشت پر سوار ہوکر ایک سفر کی طرف رواں دواں ہے جو اسے دن اور مہینوں کے ذریعے فنا کے گھاٹ اتار رہا ہے۔ وہ روزانہ صبح اور شام اس حال میں کر رہا ہے کہ دنیا سے دور ہورہا ہے اور قبر کے قریب۔ اہل شعور تو اپنی آخرت سنوارنے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ نادان اپنی عقبی بگاڑنے میں محو ہیں۔ احتساب نفس سال کے اختتام کا درس تھا جیسا کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ "اپنے نفوس کا احتساب کرو اس سے پہلے کہ تمہارا حساب لیا جائے اور اپنی اعمال و اخلاص کا وزن کرو اس سے پہلے کی تمہارے اعمال کو میزان پر رکھ دیا جائے۔ وقت انسان کی سب سے قیمتی متاع حیات ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کیا جاتا ہے کہ "میں اس دن کافی نادم ہوتا ہوں جس دن سورج ڈوب جاتا ہے، میری زندگی کا ایک دن بھی کم ہو جاتا ہے لیکن میں اپنے عمل میں اضافہ نہیں کرتا ".شاعر مشرق علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ اور مولانا الطاف حسین حالی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے ذریعے اس بات کو واضح کیا ہے کہ سلف کس قدر وقت کے معاملے میں محتاط تھے۔ جہاں وہ ایک طرف شرعی علوم سے منور تھے تو دوسری طرف سائنسی علوم سے بھی آراستہ تھے۔ وہ دن کے مجاھد اور راتوں کے شب بیدار تھے۔ لیکن عصر حاضر کے مسلمان لہو و لعب، سستی و کاہلی کے مجسمے بن گئے ہیں۔ تبھی ذلت و رسوائی نے ہر طرف سے گھیراؤ کیا ہوا ہے۔ دولت کی فراوانی نے ہماری غیرت و صلاحیتوں کا جنازہ نکال دیا۔
کچھ وقت چاہتے تھے کہ سوچیں ترے لیےتو نے وہ وقت ہم کو زمانے نہیں دیا
انسان کی زندگی میں وقت کے تعین time table کی کافی اہمیت ہے۔ فرمان مصطفی ﷺ ہے کہ "بلاشبہ تمہارے بدن کا تم پر حق ہے ، تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے، تمہارے گھروالوں کا تم پر حق ہے اور تمہارے ملاقاتیوں کا بھی تم پر حق ہے، پس ہر ایک کا حق ادا کرلیا کرو”.(صحیح بخاری) ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے۔ جیسا کہ امام ابن حبان رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی الصحیح میں بعض سلف سے نقل کیا ہے کہ ” عاقل پر لازم ہے کہ وہ اپنے وقت کے چار حصے کر لے۔۔۔ ایک حصہ عبادات و مناجات کے لئے، دوسرا حصہ احتساب نفس و تدبر کائنات کے لئے، تیسرا حصہ علوم و فنون کے لئے اور آخری حصہ کھانے پینے اور نیند کے لئے ".یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اہل عقل ہر کام کے لئے افضل وقت کا چناؤ کرتے ہیں۔ شریعت نے جو اوقات مبارک قرار دئیے ہیں وہ ہیں صبح کا وقت، رات کا آخری پہر وغیرہ۔ وقت کی ناقدری زوال نعمت کی نحوست ہے۔ رسول رحمتہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مفہوما نقل کیا گیا ہے کہ ” شیطان ایسے انسان کے کانوں میں پیشاب کردیتا ہے جو طلوع آفتاب کے بعد بیدار ہوتا ہے۔ "اسی طرح ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ” پانچ نعمتوں کو زوال سے پہلے غنیمت جان لو, زندگی کو موت سے پہلے، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، فرصت کو شغل سے پہلے اور غنی کو فقر سے پہلے ".(مستدرک للحاکم) سال 2020 نے ہمیں کئی ایک چیزوں سے متعارف کروایا مثلاً online education ، online earning ، online journalism ، online business وغیرہ لیکن دوسری طرف ان چیزوں کے بہانے نوجوان ملت smart phones کے ذریعے فحاشی اور عریانی کے دلدل میں بھٹک گئی۔ اس کا تدارک تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ثانیاً جب تک یہ حالات تبدیل نہیں ہوتے تب تک ہمیں وقت کا حق ادا کرنے کے لئے alternatives ڈھونڈنے ہونگے۔ قرآن و سنت کا مطالعہ، کتب بینی بھی ایک راہ ہے جس سے وقت کا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
ابن آدم پر لازم ہے کہ ماضی کے شیدائی بن کے نہ رہیں بلکہ حال کی تعمیر اور مستقبل کی فکر کرکے اپنے اسلاف کی لاج رکھ لیں۔ ایک عربی شاعر کے کلام کا ترجمہ پیش خدمت ہے کہ "ہمارے پیش روا گرچہ عزت و بزرگی والے تھے ، لیکن ہم آباء و اجداد پر تکیہ کرنے والے نہیں ہیں، ہم تعمیر کریں گے جس طرح ہمارے پیش رو تعمیر کرتے آئے ہیں اور انھیں کی طرح کارنامے بھی انجام دیں گے ".اپنی حیات کو سنن مبارکہ سے مزین کرکے رب کی قربت کا حصول کر لیں۔غفلت چھوڑ کر حلال روزی کمانے کی خاطر کمر بستہ ہوجائیں، امید کا دامن کبھی نہ چھوڑیں، اپنی خودی کا سودا نہ کریں، مایوسی و بزدلی کو اپنے ذہنوں پر طاری نہ ہونے دیں۔ حلم و بردباری سے اپنے لیل و نھار گزاریں۔ نوجوان ملت پر ذمہ داریاں عائد ہو چکی ہیں۔ اپنی صلاحیتوں سے استفادہ حاصل کرلیں۔
موت كے سکھ میں چلا آیا مجھے دیکھنے کوزندہ رہنے کی مصیبت تھی کہاں تھا اس وقت
سنا تھا کہ وقت کے ساتھ ہر زخم بھر جاتا ہے۔ وقت زخموں کا مرہم کرتا ہے لیکن وادی کشمیر جن زخموں سے جوج رہی ہے وہ کبھی نہیں بھر سکتے۔ ہمارا روح چھلنی ہوچکا ہے۔ اغیار نے ہمارے معصوم گلابوں کو مسل دیا۔ ہائے افسوس! ہم اب بھی باز نہیں آتے۔۔۔یہاں گلی گلی خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔۔۔۔ یہاں ہر سمت ماتم و مرثیہ خوانی کی محفلیں سجی ہوئی ہیں۔۔۔۔۔ ہم کیوں سبق حاصل نہیں کرتے۔۔۔۔؟ ہم پھر بھی طاغوت کے علمبرداروں کے جوتے صاف کر رہے ہیں۔۔ ہماری غیرت کو کیا ہوگیا۔۔۔؟
آئینہ وقت دیکھوں تو یاد ماضی کیچند جھریاں میرے چہرے پے بھی ہیں
شرم و حیا و پاکدامنی کا فقدان ہے، اس زہریلے معاشرے میں شریعت کی سنہری کرنیں بلند کرنے کا فرض نوجوان ملت کے کندھوں پر رکھ دیا گیا ہے۔۔۔۔ بیدار ہو جاؤ، مقصد تخلیق سے آشنا ہو جاؤ۔۔۔۔ اتر پڑو میدان عمل میں۔۔۔ زمانہ تمہارے قدموں کا منتظر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ معروف قول یاد رکھ لیں کہ "Understanding the value of time is understanding the true essence of life”.
تجھ سے ملتا ہوں تو اس سوچ میں پڑ جاتا ہوںوقت کے پاؤں میں زنجیر میں ڈالوں کیسے
اب وقت کا تقاضا ہے کہ اپنی غیرت کو پھر سے زندہ کر لیں۔۔۔۔ اپنے مرے ہوئے
ضمیر کو پھ
ر سے تازگی بخشیں۔۔۔۔۔ مکر و فریب کے دعویداروں سے کنارہ کشی اختیار کرکے طاغوت سے تحذیر اختیار کرلیں۔۔۔اور اس عظیم فرمان کو یاد رکھ لیں کہ ” سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا شانہ پکڑ کر فرمایا ”دنیا میں اس طرح ہو جا جیسے تو مسافر یا راستہ چلنے والا ہو۔“ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے شام ہو جائے تو صبح کے منتظر نہ رہو اور صبح کے وقت شام کے منتظر نہ رہو، اپنی صحت کو مرض سے پہلے غنیمت جانو اور زندگی کو موت سے پہلے۔”.(صحیح البخاری، کتاب الرقاق، رقم الحدیث 6416)
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں وقت کی قدر و منزلت پہچاننے کی توفیق عنایت فرمائے۔۔۔ اللہ وقت کی برکت سے ہمیں نوازے۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔