ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
حالات کے اعتبار سے ترجیحات میں ترمیم ہر وقت کی اہمت ضرورت ہوتی ہے بلکہ ہر وقت کا جبری تقاضا ہوا کرتا ہے، جس قوم نے بھی حالات کو سمجھا اور اس کے لحاظ سے ترجیحات میں تبدیلی لائی؛ تو وہ قوم ترقی یافتہ نظر آئی، اس نے اپنی نسل کو تابناک مستبقل دیا بلکہ انہیں حالات کی تبدیلی کا خاص خیال کرنے کی وجہ سے وہ قوم صدیوں تک مختلف ملکوں پر حکومت کرتی ہوئی نظر آئی۔ قوم مسلم نے بھی شریعت کے دائرے میں رہ کر جب تک جبری تقاضے کا پاس و لحاظ رکھا، اس نے خود کو پوری دنیا کے سامنے عوج ثریا پر پایا، اپنی آنے والی نسلوں کو بہترین اور چمکتا ہوا مستقبل دیا اور صدیوں تک مختلف ممالک تو مختلف ممالک، وہاں کے باشندوں کے دلوں پر بھی حکومت کرتی رہی، یہ قوم مسلم ہی کی شان ہے کہ جسم و زمین کے ساتھ، دل پر بھی حکومت کرنا جانتی ہے، مگر یہ قوم جب سے شریعت کے دائرے میں رہ کر حالات کے اعتبار سے ترجیحات کو نظر انداز کرنے لگی، تنزلی اس کی پرچھائیں بن گئی، زمینی سطح پر اس کا وجود مٹتا چلا گیا اور تباہی و بربادی اس کا مقدر بنتی ہوئی نظر آئی۔ قوم مسلم کے لیے دو قسم کی ترجیحات ہوتی ہیں:
ایک قسم وہ ہے جسے ہر زمانہ میں ترجیح حاصل ہونی چاہیے، مثلا ایک وقت تھا کہ لوگ اچھائی کو برائی پر ترجیح دیتے تھے، مگر آج حال یہ ہوچکا ہے کہ لوگ برائی کو اچھائی پر ترجیح دیتے ہیں حالاں کہ آج بھی اچھائی ہی کو ترجیح دینا وقت کی ضرورت ہے، ایک وقت تھا کہ لوگ انفرادی فائدے کو اجتماعی فائدے پر قربان کردیتے تھے مگر آج حالت ایں جا رسید کہ لوگ اجتماعی فائدے کو اپنے انفرادی فائدے کےلیے قربان کردیتے ہیں، حالاں کہ آج بھی اجتماعیت کو فوقیت دینے کی سخت ضرورت ہے، ایک وقت تھا کہ لوگ اپنی ضرورت کے باوجود اپنے مسلم بھائی کی ضرورت کو ترجیح دیتے تھے اور آج بات یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگ اپنی ضرورت نہ ہو؛ تو بھی اپنے مسلم بھائی کی مدد کرنے سے کتراتے ہیں، حالاں کہ ایک مسلم کو اپنے مسلم بھائی کا ہمہ وقت خیال کرنا آج بھی بہت ہی اہمیت کا حامل ہے، ایک وقت تھا کہ یہ قوم اپنے آپ کو تعلیم و تربیت سے مزین کرنے کو ہر چیز پر فوقیت دیتی ہے مگر آج حالت دگر گوں ہے، آج یہ قوم تعلیم و تربیت کو پس پشت ڈال کر صرف کھانے کو جینا سمجھ چکی ہے، حالاں کہ آج بھی تعلیم و تربیت ہی کو اپنا اصل مقصد بنانا اور اسی کو زندگی سمجھا وقت کا اہم تقاضا ہے، ایک وقت تھا کہ یہ قوم ہمیشہ اپنے آپ کو باقوت و مضبوط بنانے کی فکر میں رہتی تھی مگر آج یہ قوم صرف عمارت کی چمک دمک پر توجہ دیتی ہے، حالاں کہ آج بھی اسے اپنی مضبوطی کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہنے کو ہی ترجیح دینا چاہیے، ایک وقت تھا کہ یہ قوم اصل کو اصل اور فرع کو فرع ہی کے منزل میں رکھتی تھی مگر آج بالکل اس کے برعکس نظر آتا ہے، عقیدتا کچھ بھی ہو، مگر عملا یہ قوم اصل کے ساتھ فرع اور فرع کے ساتھ اصل کا برتاؤ کرتی ہوئی نظر آرہی ہے اور فرع کے ساتھ یہ برتاؤ اس قدر دل میں گھر کرگیا ہے کہ اس کے سامنے اصل کی بات ہیچ نظر آتی ہے۔ حالاں کہ آج بھی عملا اصل ہی کو فوقیت دینا وقت كا جبری تقاضا ہے۔
دوسری قسم وہ ہے جس میں حالات کے اعتبار سے تبدیلی ہونی چاہیے، مثلا ایک وقت تھا کہ قوم مسلم کو رہنمائی کی گئی کہ وہ غریبوں کو کھانا کھلائیں؛ کیوں کہ آج کے بنسبت اس وقت غربت بہت زیادہ تھی، لوگوں کے لیے دو وقت کھانے کے لالے پڑے رہتے تھے، مگر آج حالت ایسی نہیں ہے؛ شاید باید ہی کوئی مل جائے جسے دو وقت کی روٹی نہ ملتی ہو؛ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے دسترخوان پر عموما امیر یا کھاتے پیتے لوگ ہی نظر آتے ہیں؛ اس لیے غریب مل جائیں، فبہا ورنہ اس زمانہ میں ایصال ثواب کی نیت سے کھانے پلانے پر خرچ کرنے کے بجائے، وقت کے لحاظ سے اعلی تعلیم و تربیت، اپنی قوم کو باقوت اور بڑا تاجر وغیرہ بنانے پر خرچ کرنا چاہیے۔ ایک وقت تھا کہ لوگ علمی پیاس بجھانے کے لیے مختلف ممالک کا سفر کرتے تھے، مگر آج حالت یہ ہے کہ عموما لوگ بار بار مختلف ممالک میں موجودہ زیارت گاہوں کی زیارت کرنے کے لیے سفر کرتے ہیں، حالاں کہ یہ ایک بار ہوجائے، یہی کافی ہے اور نہ بھی ہو تب بھی کوئی حرج نہیں؛ کیوں کہ حالات زمانہ، قوم مسلم کو یہ باور کرانا چاہ رہے ہیں کہ یہ وقت نفلی سفر پر خرچ کرنے کا نہیں بلکہ اپنی قوم کی واجبی حالات پر خرچ کرنے کا وقت ہے، ایک وقت تھا کہ قوم مسلم اپنی ضروریات و حاجات تک محدود رہتی تھی یا حالات کے اعتبار سے ٹھاٹھ باٹھ میں تھوڑی بہت تبدیلی لاتی تھی، مگر آج حالت یہ ہے کہ ضروریات و حاجات سے بڑھ کر طرح طرح کی سہولیات جتنی بھی میسر آجائیں، سب کم ہی ہیں، ٹھاٹھ باٹھ میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی عجیب ہوڑ لگی ہوئی ہے، حالاں کہ دور حاضر کے حالات ہمیں یہ بار بار سمجھانے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں کہ میاں آپ ضروریات و حاجات تک محدود رہو یا حالات کے تقاضے کے مطابق تھوڑی بہت سہولیات بھی حاصل کرو، ایک دوسرے سے بڑھنے کی بھی انتھک کوشش کرو، مگر اس کے چکر میں اپنی قوم مسلم کی ضروریات و حاجات کو کبھی نہ بھولو، انہیں قعر مذلت میں نہ جانے دو، انہیں پس پشت ڈالنے کا سبب نہ بنو، ان کے مستقبل کو بھی سنوارنے کی فکر کرو تاکہ آپ کی قوم اس عالی مقام پر ہو، جہاں اسے ہونا چاہیے؛ کیوں کہ ہر مسلم کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ صرف محض فرد مسلم کی سلامتی میں فرد یا قوم مسلم کی سلامتی نہیں بلکہ اکثریت مسلم کی سلامتی میں ہی فرد و قوم مسلم کی سلامتی ہے۔
یاد رکھیں اگر اکثریت قوم مسلم سلامت نہیں رہی؛ تو آپ اپنے فردی وجود کو بھی مٹنے سے نہیں روک پاؤ گے، اگر اکثریت قوم مسلم جیتی جاگتی نہیں رہی؛ تو آپ بھی جیتے جاگتے زیادہ دن نہیں رہ پاؤ گے، اگر قوم مسلم کی اکثریت خوشحال نہیں رہی؛ تو آپ بھی زیادہ دن خوش حال نہیں رہ پاؤ گے، اگر قوم مسلم کی اکثریت امن و امان سے نہیں رہی؛ تو عبادت گاہیں اور زیارت گاہیں بھی مامون نہیں رہ جائیں گی؛ اس لیے آج حالات کا جبری تقاضا ہے کہ ہم حالات و زمانے کے مطابق اپنے اور اپنی قوم کے اندر جائز طریقے سے تبدیلی لائیں، کیسی بھی حالت ہو، اچھائی کو ہمیشہ برائی پر ترجیح دیں، اجتماعی فائدے کے لیے ہمیشہ فردی قربانی کے لیے تیار رہیں، اپنی ضرورت پر مسلم بھائی کی ضرورت کو ترجیح دیں یا کم از کم اپنی ضرورت کے ساتھ مسلم بھائی کی ضرورت کا ضرور خیال رکھیں، کھانے سے زیادہ اعلی دینی و عصری تعلیم و تربیت پر توجہ دیں، عمارت زیادہ چمکانے کے بجائے اپنی اور اپنی قوم کی مضبوطی کے لیے پیش قدمی کریں، صرف عقیدتا نہیں بلکہ عملی طور پر بھی اصل کو اصل اور فرع کو فرع ہی کا درجہ دیں۔
نیز ترجیحات میں ترمیم لاکر ایصال ثواب کی نیت سے دور حاضر میں امیر کبیر اور کھاتے پیتے لوگوں کو کھانا کھلانے کے بجائے، ان پیسوں سے قوم کے بچوں کی دینی و عصری اعلی تعلیم و تربیت پر خرچ کریں، بار بار مختلف ممالک یا ملک کی زیارت گاہوں کی طرف جانے کے بجائے، ایک ہی بار پر اکتفا کریں اور باقی روپیوں سے ضرورت کے مطابق اپنی قوم کی لازوال خدمات انجام دیں، ضرورت سے زیادہ ٹھاٹھ باٹھ یا امیری کبیری دکھانے کے بجائے، اس کو اپنی حد میں رکھیں اور باقی روپئے سے اپنے بچے یا قوم کے بچوں کے مستقبل کو روشن و تابناک کرنے کی سعی مسعود کریں، یاد رکھیں کہ آنے والی نسلیں یہ نہیں دیکھیں گی کہ آپ نے کیا کھایا، کیا پیا، کیسا گھر بنایا اور کیسی کیسی سہولتیں حاصل کیں بلکہ وہ تو یہ دیکھیں گی کہ آپ نے ان کے مستقبل کے لیے کیا اقدام کیا، ان کی قوم کے لیے کونسا ایسا عمل کیا؛ جس کی وجہ سے وہ لوگوں کے درمیان سر اٹھاکر جینے کے قابل ہوگئیں، وہ تو یہ دیکھیں گی کہ آپ نے انہیں کونسا پلیٹ فارم دیا؛ جس کی بنیاد پر وہ دینی و عصری قوت سے لیس ہوکر بھارت کے دشمنوں سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل ہوگئیں، وہ تو یہ دیکھیں گی کہ آپ نے کونسی قربانی دی؛ جس کی بنیاد پر آج وہ قعرمذلت سے نکل کر دین و دنیا کی بلندیوں میں پرواز کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں، وہ تو یہ دیکھیں گی کہ آپ نے انہیں کونسی قوت و طاقت دی ہے جس کی بنیاد پر کوئی انہیں ان کے ناکردنی کی سزا دینے کی جسارت نہیں کر پارہا ہے۔
صحیح معنوں میں اگر دیکھا جائے؛ تو عموما ہمارے اندر صحیح سوچ و فکر کا نہ ہونا یہ ہماری خود غرضی کا نتیجہ ہے، دور حاضر میں ہمارا مسلم معاشرہ بہت ہی خود غرض ہوچکا ہے، تقریبا ہر چھوٹا و بڑا اس خود غرضی کے بندھن میں ایسا جکڑ گیا ہے کہ اسے اپنے سوا کوئی دکھائی ہی نہیں دیتا، ہمیں اپنے اور اپنے معاشرے کے اس بندھن کو توڑنا ہوگا؛ کیوں کہ اسلام میں کھبی خود غرضی تھی ہی نہیں، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے جو قربانیاں دیں اور آج تک ان کی اتباع میں جو لوگ قربانیاں دیتے آرہے ہیں، اگر ان کی بھی سوچ و فکر ہماری خود غرضی کی طرح ہوتی؛ تو شاید اسلام مکہ و مدینہ ہی میں سمٹ کر رہ جاتا، مگر رب تعالی نے انہیں وہ فکر و سوچ دی تھی جس کے ذریعے وہ صرف اسلام کے لیے ہی جیتے و مرتے تھے، ان کے اندر خود غرضی نام کی بھی نہیں تھی، آج ہمیں اسی فکر کو اپنانے اور اپنے معاشرے میں اسی فکر و سوچ کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ اگر وقت اور حالات کے لحاظ سے ہم اور آپ نے ترجیحات و ترمیات پر توجہ نہیں دی؛ تو مذہب اسلام کا کچھ نہیں بگڑے گا؛ کیوں کہ اسلام اپنی ٹھوس دلائل کی بنیاد پر بلند تھا، بلند ہے اور قیامت تک بلند رہے گا، البتہ بگڑے گا؛ تو ہمارا اور ہمارے معاشرے کا بگڑےگا، قوم مسلم کی حالت دگر گوں ہوگی، ان کی ذلت و رسوائی اور کمزوری کی وجہ سے اسلام اور قوم مسلم کو گالیاں پڑیں گی؛ اس لیے اپنے ساتھ، اپنی قوم مسلم کی بھی فکر کریں؛ کیوں کہ اسلام زندہ تھا، زندہ ہے اور تا قیامت زندہ رہے گا؛ اس لیے وہ ہمیں اور آپ کو اپنے صحیح طریقے پر بلاکر ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید رکھنا چاہتا ہے:
اسلام تیری نبض نہ ڈوبے گی حشر تک
تیری رگوں میں خون رواں ہے چار یار کا
انداز بیاں گر چہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات
طالب دعا:
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
موبائل نمبر: 9936691051