نظم

ہر اک میدان میں ہے سب کو ضرورت تیری

نتیجہ فکر: محمد کہف الوری مصباحی
نائب صدر: لمبنی پردیس، راشٹریہ علما کونسل نیپال
نگران اعلی: فروغ اردو زبان، تعلیمی شاخ، ڈڈوا گاؤں پالیکا

اٹھ ذرا دیکھ صدا کون لگاتا ہے یہاں
قصہ درد نہاں کون سناتا ہے یہاں
کون فریاد لیے تکتا ہے صورت تیری
ہر اک میدان میں ہے سب کو ضرورت تیری
حسن گل بھی تری تصویر کا دیوانہ ہے
مے بھی شیدائی فدا تجھ پہ یہ پیمانہ ہے
ذرہ ارض و سما میں ہے تمازت تیری
ہر اک میدان میں ہے سب کو ضرورت تیری
قوم مسلم نے سیاست کو زہر سمجھا ہے
آپسی جھگڑے کو کیا خوب ہنر سمجھا ہے
قوم کو چاہیے اب شان سیاست تیری
ہر اک میدان میں ہے سب کو ضرورت تیری
ملت بیضا کے افراد سنبھلنا ہے تمہیں
قوم کے رہبر و اسیاد سنبھلنا ہے تمہیں
کھو گئی ہائے کہاں کل کی ریاست تیری
ہر اک میدان میں ہے سب کو ضرورت تیری
بے مقاصد ترے شب روز گزر جاتے ہیں
یوں ہی بے کار سے ہر روز گزر جاتے ہیں
مسجدوں میں نہیں اب ہوتی جماعت تیری
ہر اک میدان میں ہے سب کو ضرورت تیری
جن کی ذلت کی کہانی تھی سبھی کے لب پر
آج پڑھ لکھ کے وہ کرتے ہیں حکومت سب پر
کھو گئی کیسے وہ تدبیر سلطنت تیری
ہر اک میدان میں ہے سب کو ضرورت تیری
اب مسلماں کو عداوت ہے مسلمانوں سے
دل لگی کر لی ہے انہوں نے صنم خانوں سے
کیا نہیں دکھتی ہے خطرے میں امامت تیری
ہر اک میدان میں ہے سب کو ضرورت تیری
کفر یکجا ہے ترا نام مٹانے کے لیے
متحد کیوں نہیں تو دیں کو بچانے کے لیے
قومی یکجہتی پہ کب ہوگی خطابت تیری
ہر اک میدان میں ہے سب کو ضرورت تیری
کیوں دکھاتا ہے انہیں سوز دروں اے ازہر
ہو گئی قوم تری ظلم و جفا کی خوگر
ان کی عقلوں میں نہ آئے گی مہارت تیری
خاک محسوس کریں گے یہ ضرورت تیری