تحریر: اشکر رضا لطفی مصباحی
حضرت نعمان بن ثابت معرف امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ولادت 80 ہجری ، وفات 2 شعبان 150 ہجری ) کو اللہ رب العزت نے ہر طرح کی خوبی سے نوازا تھا ۔ اور کیوں نہ ہو آپ نوید محمد رسول اللہ ﷺ جو ٹھہرے۔ علم تفسیر و اصول تفسیر، حدیث و اصول حدیث ، فقہ و اصول فقہ ہر علم میں آپ ممتاز ، وحید دہر ، اور فرید عصر نظر آتے ہیں ۔ ایک عالَم آپ کی تعریف میں رطب اللسان ہے، اکابر مفسرین ، محدثین، فقہا ، بلکہ ائمہ ثلاثہ (امام مالک ، احمد ابن حنبل ، شافعی) بھی آپ کی تعریف کرتے نہیں تھکتے ۔
آج ہم امام اعظم کی اس ایک خوبی پر تھوڑی روشنی ڈالیں گے ، جس کے بارے میں امام ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے کہا تھا ” امام ابوحنیفہ وہ ہیں جن کی عقل اگر نصف روئے زمین والوں سے تولی جائے تو ضرور امام صاحب کی عقل ، ان سبھوں کی عقل سے وزنی ہوگی "
ذہانت و فطانت کیا ہے ؟ یہ خدا کی دی ہوئی ایسی طاقت اور نعمت ہے ، جس کا احساس ہر طبقہ کے لوگوں کو ہوتا ہے ، ذہن ہی ہے جس کا استعمال ، انسان کو گوہر نایاب بنادیتا ہے ، ذہن ہی ہے جس سے ترتیب مقدمات میں مدد ملتی ہے ۔ ذہن ہی ہے جس سے انسان اپنے مافی الضمیر کی ادائےگی ، احسن طریقہ پر کرسکتا ہے ۔ ذہن ہی ہے جس سے انسان ، اپنے اور اپنے ماننے والوں کا صحیح طور پر دفاع کرسکتا ہے ۔ ذہن ہی ہے جس کا استعمال ، انسان کو اپنے مدمقابل کے دام تزویر کا شکار ہونے سے بچاسکتاہے ۔ علم ہونا یقینا ایک نعمت الٰہیہ ہے ، لیکن علم میں چار چاند اس وقت لگتے ہیں ، جب اس کا صحیح وقت پر استعمال کیا جائے ۔ اور اس میں مام اعظم نمایاں مقام رکھتے ہیں ، ایک حدیث سے ہزاروں مسائل کا استخراج و استنباط وہی کرسکتاہے جو، غایت درجے کا ذہین و فطین ہو ۔
امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منعم حقیقی نے ، ایسی ذہانت سے نوازا تھا کہ ، آپ کی حاضر جوابی سے بڑے بڑے سورما ، خاموشی ہی میں اپنی بھلائی سمجھتے تھے ، بلکہ درباری قاضی بھی چپ ہوجایا کرتے تھے ۔
ذیل میں ہم چندایسے واقعات لکھتے ہیں ، جس سے آپ کی ذہانت کا اندازہ لگایاجاسکتاہے ۔
(1) ایک شخص امام اعظم کی خدمت میں آیا اورسوال کیا کہ : اس شخص کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے جو، نہ جنت کی امید رکھتا ہے نہ دوزخ کا ڈر ، مردار کھاتاہے ، حق سے بغض رکھتا ہے ، فتنہ کو محبوب رکھتا ہے ، نماز ادا کرتے وقت رکوع وسجود نہیں کرتا اور بغیر دیکھے شہادت دیتا ہے ؟ آپ کے شاگردوں نے کہا کہ : ایسا شخص بے دین اور گمراہ ہے ۔ سوال کا ظاہر کا تو یہی بتارہاہے ، کوئی بھی ایسا ہی جواب دےگا ، لیکن قربان جائیں ذہانت وفطانتِ امام اعظم پر ، آپ نے فرمایا : ایسے شخص کا عقیدہ میرے نزدیک صحیح ہے ؛ پھر وجہ بیان فرمائی کہ : وہ شخص صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کےلیے اس کی عبادت کرتاہے ، نہ جنت کے حصول کے لیے اور نہ دوزخ کے ڈر سے ، وہ مردار کھاتا ہے ۔ یعنی مچھلی اور ٹڈی کھاتا ہے ۔ موت حق ہے ، لیکن اسے ناپسند رکھتا ہے ۔مال واولاد فتنے ہیں ، اور یہ اس سے محبوب رکھتا ہے۔ بغیر رکوع وسجود کے نماز پڑھتا ہے ، یعنی نماز جنازہ ۔ اور اللہ تعالیٰ کو بغیر دیکھے اس کی توحید کی گواہی دیتا ہے ۔ سائل اٹھا اور فرط محبت میں آپ کی پیشانی کو بوسہ دیتے ہوئے بولا : یقینا آپ وعلم وفن کے امام ہیں ۔
(2) قاضی ابن ابی لیلیٰ نے ایک دن آپ سے کہا : آپ نبیذ کو حلال سمجھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا :ہاں ! قاضی صاحب نے کہا : تو کیا میں آپ کی ماں کو "نبّاذہ " کہہ سکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا : غنا اور سرود آپ کے نزدیک حلال ہیں ؟ قاضی نے کہا : ہاں ! آپ نے فرمایا: تو کیا میں آپ کو "مغنیہ” (گانے والی) کا بیٹا بول سکتا ہوں ؟ اتنا سن کر قاضی ابن ابی لیلیٰ بالکل خاموش ہوگئے ۔
(3) یہی قاضی ابن ابی لیلیٰ، ایک دفعہ خلیفہ منصور کے دربارمیں بیٹھے ہوئے تھے، امام اعظم بھی وہاں تشریف فرماتھے ، کہ ایک سائل آکر پوچھتا ہے کہ ،ایک آدمی نے غلام خریدا ، اور بیچنے والے نے کہا کہ یہ غلام ہرعیب سے پاک ہے ، تو کیا یہ بیع درست ہے ؟ قاضی صاحب نے کہا : نہیں ، جب تک عیب پر ہاتھ رکھ کر نہیں کہے اس وقت تک بیع درست نہیں ہوگی ۔ امام اعظم نے فرمایا کہ یہ تو کوئی شرط نہیں ہوئی ؛ پھر مثال دیا کہ اگر بادشاہ کے حرم کی کوئی خاتون اپنا غلام بیچنا چاہے، جس کے ذَکَر پر برص کا داغ ہو ، تو کیا اس غلام کے ذکر پر ہاتھ رکھ کر کہے گی کہ "عیب”یہاں ہے ؟ قاضی صاحب نے کہا : ہاں ! کہنا ہوگا ، بادشاہ کو غصہ آیا اور قاضی کو اپنے دربار سے نکال دیا ۔
(4) امام اعمش نے اپنی بیوی سے جھگڑلیا تو ، بیوی ناراض ہوکر بولی : میں تم سے بات نہیں کروں گی ! اعمش نے بات کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ نہ مانی ، اعمش بھی غصہ ہوکر بولے : اگر آج رات تو مجھ سے نہ بولی تو تم کو طلاق ۔ بیوی پر پھر بھی کچھ اثر نہ ہوا اوروہ بدستور ناراض ہی رہی ، اب تو اعمش خوف کھانے لگے کہ ایسا نہ ہو کہ میری بیوی میرے ہاتھ سے نکل جائے ؛ چناں چہ اعمش امام اعظم کی بارگاہ میں آکر اپنا واقعہ سناتے ہیں ، امام اعظم نے فرمایا کہ آپ کا مسئلہ تو آج رات ہی حل ہوجائےگا ، آپ نے اعمش کے مؤذن کو بلاکر کہا کہ: آج فجر کے وقت سے پہلے ہی فجر کی اذان دے دینا ! ایسا ہی ہوا مؤذن نے رات ہی میں فجر کی اذان دے دی ۔ ان کی بیوی نے سمجھا کہ اب تو صبح ہوگئی ، بات کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ، اب تو میں ایک مطلقہ آزاد عورت ہوں ، اور بولی :اے تند مزاج ! آج میں تمہارے نکاح سے آزاد ہوں، اعمش نے کہا :مت گھبرا ابھی رات باقی ہے۔ اس طریقہ سے امام اعظم کی وجہ سے ، اعمش کی بیوی ، ان کے ہاتھ سے نکلنے سے بچ گئی۔
(5) کسی شخص نے آپ سے پوچھا کہ، ایک آدمی نے کہا کہ اگر غسل جنابت کروں تو میری بیوی کو تین طلاق ، پھر کہا : اگر آج کے دن کوئی نماز چھوڑوں تو تین طلاق ، پھر بولا: اگر آج اپنی بیوی سے ہم صحبت ہوا تو تین طلاق ، اب ایسا شخص کیا کرے ؟ کیا کوئی صورت ہے کہ قسم بھی پوری ہوجائے اور طلاق بھی نہ واقع ہو ؟ آپ نے فرمایا : وہ آدمی عصر کی نماز پڑھ کر اپنی بیوی سے ہم بستر ہو ، سورج غروب ہونے کے بعد غسل کرے ، پھر مغرب وعشا کی نماز اداکرے ، کیوں کہ "آج کے دن ” سے پانچ وقت کی نمازیں مراد ہیں ۔
(6) ایک شخص کی بیوی کے ہاتھ میں پانی کاپیالہ تھا ، اس نے کہا کہ : اگر تو اسے پیے یا بہائے یا کسی کو دے تو ، تجھے طلاق! اس صورت میں عورت کیا کرے ، جس سے طلاق نہ واقع ہو اور اس کا نکاح نہ ٹوٹے ؟ آپ نے فرمایا : کہ اس میں کوئی کپڑا ڈال کر پانی کو سکھادے۔
(7) ایک آدمی نے قسم کھایا کہ انڈا نہیں کھاؤں گا ، پھر قسم کھائی کہ فلاں شخص کے آستین میں جو چیز ہے اسے ضرور کھاؤں گا ، اور جب دیکھاگیا تو اس شخص کی آستین میں انڈاہی تھا ، اب کیا کرےگا؟ جس سے اس کی قسم نہ ٹوٹے ؟ آپ نے فرمایا کہ: اس انڈا کو کسی مرغی کے نیچے رکھ دے جب بچہ ہوجائے تو ، بھون کر کھالے، یا پکاکر شوربا کے ساتھ سب کو کھالے ۔ اس سے اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی ۔
(8) ایک شخص نے ایک عورت سے پوشیدہ نکاح کیا (کوئی آدمی گواہ نہ تھا) جب ا س کو لڑکا ہوا ، تب وہ شخص انکار کرگیا ۔ اس عورت نے قاضی ابن ابی لیلیٰ کے پاس دعویٰ دائر کیا ، قاضی نے کہا : نکاح کا گواہ لاؤ! اس عورت نے کہا : کہ اس آدمی نے مجھ سے اس طور پر نکاح کیا کہ اللہ تعالیٰ ولی ہے ، اور دونوں فرشتے گواہ ہیں ۔ قاضی صاحب نے دعویٰ خارج کردیا ، وہ عورت امام اعظم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر واقعہ سنائی ، آپ نے فرمایا کہ: قاضی صاحب کے یہاں جاؤ اور کہہ کہ مدعاعلیہ کو بلوائیے ، اور میں گواہ لاتی ہوں ! جب وہ اس کو بلائیں تو کہہ کہ : ولی اور شاہدین کے ساتھ کفر کر ، چناں چہ ایسا ہی کیا گیا ۔ وہ شخص لاجواب ہوگیا بالآخر نکاح کا اقرار کرہی لیا ۔
(9) خلیفہ منصور عباسی کا ایک خاص خدمت گار ،خصی تھا ۔ وہ امام اعظم کا سخت مخالف تھا ۔ اس نے بادشاہ سے کہا کہ : ابوحنیفہ کو حاضر ہونے کا حکم دیا جائے ، میں اس سے صرف تین سوال کروں گا ۔ خلیفہ نے کہا کہ : اگر وہ صحیح جواب دے دیے تو میں تیری گردن اڑادوں گا ! امام اعظم آتے ہیں ، اس خصی غلام نے سوال کیا کہ : دنیا کا مرکز کہاں ہیں ؟ آپ نے فرمایا : تم جہاں کھڑے ہو ، وہ مرکز ہے ! پھر اس نے سوال کیا ، سر والی مخلوق زیادہ ہے یا پاؤں والی ؟ آپ نے فرمایا : سر والی ! پھر اس نے پوچھا : مرد زیادہ ہیں یا عورتیں ؟ آپ نے فرمایا : مرد زیادہ ہیں ، لیکن یہ بتاؤ تم کیا ہو مزکر یا مؤنث ؟ وہ غلام ہکا بکا رہ گیا ۔ بادشاہ نے اسے کوڑے لگوائے ۔
(10) ایک شخص نے سوال کیا کہ : ایک شخص نے یہ قسم کھائی ہے کہ، میں رمضان المبارک کے مہینے میں روزہ رکھ کر اپنی بیوی سے مجامعت کروں گا ، اگر نہ کرسکا تو میری بیوی کو طلاق ۔ کوئی عالم اس کا حل نہیں بتارہاہے ؟ کیا کوئی صورت ہے کہ اس کی بیوی پر طلاق واقع نہ ہو ؟ آپ نے فرمایا : وہ دونوں میاں بیوی سفر پر روانہ ہوں ، اور رمضان میں دن کے وقت جماع کرے ، تو نہ اس کی قسم ٹوٹے گی ، اور نہ اس کی بیوی کو طلاق ہوگی ۔
( یہ واقعات ، الخیرات الحسان ، شیخ شہاب الدین احمد ابن حجر مکی ، مقامات امام اعظم، علامہ حافظ الدین کردری ، صاحب فتاویٰ بزازیہ ، اجتلاب المنفعہ ۔ سے ماخوذ ہیں ، مزید اس قسم کے واقعات ، مذکورہ کتابوں میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔)