تحریر: محمد عفان الحسینی
قارئینِ کرام!
آج ” اصلاح معاشرہ کی فکر اور ہماری ذمہ داری” کے عنوان پر کچھ باتیں سپردِ قرطاس کررہا ہوں دعاء کریں کہ اللہ رب العزت حق لکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین *قارئین کرام !* ہمارا عنوان دو جز پر مشتمل ہے (١) اصلاح معاشرہ کی فکر(٢) اور ہماری زمہ داری دونوں جز پر کچھ باتیں تحریر کررہا ہوں تاکہ عنوان کا کما حقہ حق ادا ہوسکے اور عنوان کی وضاحت بھی کردوں تاکہ آگے کی باتیں سمجھنے میں آسانی ہو "اصلاح ” یہ لفظ عربی زبان میں باب اِفعال کا مصدر ہے جسکے معنی ہیں اردو میں کسی چیز کو درست کرنا اور لفظ "معاشرہ” یہ عربی زبان میں معاشَرت سے ماخوذ ہے جسکے معنیٰ ہیں آپس میں زندگی گزارنا ان دونوں جملوں کے اصطلاحی معنی ہوئے کہ آپسی زندگی میں جو خرابیاں ہیں ان کو دور کرنا ، آپ حضرات بخوبی جانتے ہیں اس روئے زمین پر مذہب اسلام ہی ایسا تنِ تنہا مذہب ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے اس سے ضمنی طور پر یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام اصلاحِ معاشرہ کی زبردست تاکید کرتا ہے بایں طور کہ جب اسلام زندگی کے ہر موقع پر انسان کی رہنمائی کرتا ہے اور اصلاحِ معاشرہ کا مفہوم ہی ہے کہ انسان زندگی کے تمام نشیب و فراز کے مواقع کو درست کرلے لہذا گویا کہ اسلام انسانوں کی جو رہنمائی کرتا ہے وہ اصلاحِ معاشرہ ہی کرتا ہے کیونکہ جب انسان ہر موقع پر اسلام کے بتائے ہوئے طریقے پر چلے گا تو اصلاح معاشرہ کی فکر بھی کرے گا اس لئے کہ اسلام کا اہم ترین سبق ہے یہ، اور معاشرہ کا اصلاح بھی ہوگا کیونکہ ایسا ہوہی نہیں سکتا کہ اسلام کے بتائے ہوئے طریقے سے معاشرہ کی اصلاح نہ ہو کیونکہ اصلاحِ معاشرہ کسی ایک چیز کی اصلاح کا نام نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے سے ملحق آداب کو جاننا ،صوم و صلوٰۃ کے طریقے سیکھنا سکھانا،سیاست وقیادت،عبادت و ریاضت،درس وتدریس ،تعلیم و تعلم ،افہام و تفہیم ،زہدوتقوی، مکارمِ اخلاق،حسنِ سلوک، اخوت و محبت،جودوسخاوت، دیگر اقوام کو خداءِ واحد کی وحدانیت سے روشناس کرانا،منکرینِ انبیاء کو نبیوں کی نبوت اور رسولوں کی رسالت سے متعارف کروانا ،اسی طرح قوم کو شراب نوشی،جوا،قمار،سٹہ بازی،مکروفریب،سود خوری، اور زناکاری سے بچنے کی تاکید کرنا یہ سب اصلاحِ معاشرہ میں شامل ہیں لہذا جب یہ چیزیں ہمارے معاشرے میں آئيگیں اور لوگ اسلام کے احکامات پر عمل پیرا ہونگے ،تو اللہ رب العزت خوش ہوگا اور جب اللہ رب العالمین خوش ہوگا تو برکتوں کا نزول ہوگا ، رحمت الٰہی متوجہ ہوگی اور پھر دنیا میں اسلام کا جھنڈا لہرائے گا امن و امان کا دور دورہ ہوگا عادل اور منصف حکمران ہونگے ایک دوسرے کے حقوق کا لحاظ کیا جائے گا بڑے لوگ رحم دل، اور چھوٹے باادب ہونگے اور پھر دنیا کے ساتھ ساتھ ہماری آخرت بھی سنور جائے گی *قارئینِ کرام!* مذکورہ بالا تمام باتوں سے یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اصلاحِ معاشرہ کی اسلام میں کتنی اہمیت ہے اسی اصلاح معاشرہ کے لئے اللہ رب العزت نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام اس دنیا میں بھیجے اصلاحِ معاشرہ کے لئے ہی ہمارے نبی نے پتھر کھائے ،گالیاں کھائیں،زخم سہے، اپنے نعلین مبارک کو خون سے آلود کیا یہ سب نبی نے کسی دنیوی لالچ کے لئے نہیں کیا بلکہ اصلاحِ معاشرہ کے لئے ہی کیا کیونکہ جب معاشرہ درست ہوجائے گا تو امت کی آخرت سنوریگی اور پھر یہ ہمارے نبی کے لئے فخر کا باعث ہوگا لہذا جب اصلاحِ معاشرہ اتنی اہمیت کا حامل ہے اور ہمارے نبی نے اتنی قربانیاں دیں تو ہمیں بھی اسکی کتنی فکر ہونی چاہئیے یہ آپ خود سمجھ گئے ہونگے ،اصلاحِ معاشرہ کرنا ہمارا اور آپ کا دینی اور دنیوی فریضہ ہے دینی اس اعتبار سے کہ رضاء الٰہی نصیب ہوگی دنیوی اس اعتبار سے کہ جب لوگ اسلام کے طریقے پر چلیں گے تو دنیا میں بھی سکون ہوگا لہذا جب دین دنیا کی بھلائی اسی اصلاح معاشرہ میں ہے تو کیوں نہ ہم اصلاحِ معاشرہ کی فکر کریں اور اس کو بجالانے کی کوشش کریں عنوان کا دوسرا جز ہے "اور ہماری زمہ داری” اصلاح معاشرہ کی فکر کے ساتھ ساتھ کچھ ذمہ داریاں بھی ہم پر عائد ہوتی ہیں اگر ان ذمہ داریوں سے صرفِ نظر کرلیا جائے تو اصلاح معاشرہ ہوہی نہیں سکتا ، اللہ رب العزت نے دنیا میں معاشی اعتبار سے ہر طرح کے لوگ بنائے ہیں مثلاً امیر غریب اور دونوں کی ضروریاتِ زندگی کو ایک دوسرے سے ملحق کردیا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں دو طرح کے لوگ بنائے ہیں (١) پہلی قسم میں وہ لوگ ہیں جو اصلاحِ معاشرہ کرسکیں اور اللہ نے ان کو قرآن و حدیث کا علم دیا ہے (علماء)(٢) دوسری قسم میں وہ لوگ ہیں معاشرے میں جنکی اصلاح کی ضرورت ہے (جہلاء) اللہ رب العالمین نے ان دونوں حضرات پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد کی جو قرآن و حدیث میں بکثرت موجود ہیں حدیث شریف میں ہےقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «مَنْ رَأى مِنْكُمْ مُنْكَراً فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهٖ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهٖ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهٖ، وَذٰلِكَ أَضْعَفُ الْإِيْمَانِ». رواه مسلم. ترجمہ: تم میں سے جب کوئی برائی کو دیکھے تو اس کو اپنے ہاتھ سے دور کردے ،اگر ہاتھ سے نہ دور کرسکے تو زبان سے منع کرے اور اگر زبان سے بھی منع کرنے کی استطاعت نہ رکھے تو کم سے کم دل میں برا سمجھے , اور یہ ایمان کا سب سے ضعیف (کم تر) درجہ ہے :اس لئے پہلی قسم کے لوگوں (علماء) کی ذمہ داری یہ ہے کہ معاشرے میں جب بھی کوئی برائی دیکھیں اسکو روکنے کی کوشش کریں اگر آپ اپنے ہاتھ سے روک سکتے تو ہاتھ سے روکیں ورنہ زبان سے اور سب سے کم تر درجہ ہے کہ اسکو اپنے دل میں برا سمجھیں اگر آپ سے یہ بھی نہیں ہوسکتا تو آپ کو اپنا ایمان جانچنے کی ضرورت ہے کیونکہ حدیث شریف میں مذکور ہے کہ یہ تو ایمان کا سب سے کم درجہ ہے دوسری قسم کے لوگوں (جہلاء) کی ذمہ داری یہ ہے کہ اگر انکو قرآن حدیث کی روشنی میں کسی چیز سے روکا جائے تو عناد و سرکشی اور ہٹ دھرمی کے بجائے فوراً روکنے والے کی بات کو بخوشی قبول کریں کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ ترجمہ : اے ایمان والوں تم اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے عقلمندوں (علماء) کی ( یعنی پہلی قسم کے لوگ علماء وغیرہ) اطاعت کرو لہذا دوسری قسم کے لوگوں پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس آیت کی رو سے روکنے والے کی بات مان کر اس برائی سے نکل کر توبہ کریں اور روکنے والے کا شکریہ ادا کریں کہ اس نے آپ کو کسی برائی سے نکال کر عذاب الہٰی سے بچالیا نیز پہلی قسم کے لوگوں کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ کسی کی اصلاح کرتے وقت حقیرانہ اور تکبرانہ لہجہ نہ اپنائیں اور نہ ہی طنز و مزاح کے ساتھ کہ کر اسکو شرمندہ کریں کیونکہ اللہ رب العزت قرآن مجید میں اپنے نبی سے فرماتا ہے اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-ترجمہ: آپ اپنے رب کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے سب سے احسن (بہتر )طریقے سے بحث کیجئےاس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرمارہا ہے کہ اصلاحِ معاشرہ کرنے کے لئے آپ کا انداز کتنا عمدہ ہو جب اللہ اپنے پیارے نبی کو احسن طریقے سے تبلیغ کرنے کا حکم دیتا ہے وہ بھی یہودیوں کے ساتھ تو ہماری تو سو فیصد ذمہ داری ہے کہ ہم میٹھی اور پیاری زبان کا استعمال کرکے اصلاحِ معاشرہ کریں مذکورہ بالا باتوں سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ہمیں اصلاح معاشرہ کی کتنی فکر کرنی چاہئیے اور کن کن باتوں کو ملحوظ رکھنا ہماری اور آپ کی ذمہ داری ہے اگر ہم اور آپ ان باتوں کو بغور پڑھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں تو چند دنوں میں ہی معاشرے کی تمام برائیاں دور ہوسکتی ہیں یہ تھیں چند باتیں جن کو سپرد قرطاس کرکے عنوان کا حق کما حقہ ادا کرنے کی کوشش کی اللہ رب العزت ہم سب کو ان باتوں پر عمل پیرا فرمائے آمین یا رب العالمین