تحریر : محمد سلمان صدیقی
رکن تحریک فروغ اسلام
مال انسان کی ریڑھ کی ہڈی سی حیثیت رکھتا ہے
اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا فرمایا تو اس کے ساتھ ہی انسان کی ضروریات پیدا فرماکر اس کے اسباب بھی پیدا فرمادیا۔ جب انسان اس مادی دنیا میں آیا تو اس کا مادی اشیاء سے واسطہ پڑا جن میں مال تجارت زراعت رہائش صنعت مویشی وغیرہ شامل ہیں ان میں سب سے زیادہ اہمیت تجارت کو حاصل ہے۔
تجارت کسب معاش کا بہترین طریقہ ہے اگر جائز اور شرعی اصول کے مطابق کیا جائے تو دنیوی اعتبار سے یہ نفع بخش ہوگی اور اخروی اعتبار سے بھی اجرو ثواب کا موجب ہوگی تجارت اگر چہ دنیا کے حصول اور مالی منفعت کے لئے ہوتی ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ حلال روزی تلاش کرنے کو اللہ رب العزت نے حکم دیا ہے
فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ (سورۃ الجمعة )
ترجمہ پھر جب نماز ہوچکے تو زمین مین پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو (کنزالایمان )
یہاں فضل سے مراد رزق حلال ہے .
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَاْكُلُـوٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَكُـوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَـرَاضٍ (سورسورۃ النساء)
ترجمہ اے ایمان والوں آپس میں ایک دوسرے کے مال نا حق نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کا ہو (کنزالایمان) گویا تجارت نام ہی ہے جائز طریقہ سے کھانے اور کمانے کا-
اسلام نے رزق حلال حاصل کرنے کے لئے کسی خاص ذریعے معاش کو اپنانے کا پابند نہیں بنایا ہے جس طرح عبادات و فرائض میں زور دیا گیا ہے اسی طرح اس دین نے کسب حلال اور طلب معاش کو بھی اہمیت دی ہے ۔
کسب معاش کے لیے بہترین ذریعہ تجارت ہے ۔ تجارت وہ بابرکت باعزت پیشہ ہے جسے انبیاء کرام علیھم السلام نے کی اور بذات خود حضور ﷺ نے اعلان نبوت سے قبل ہی تجارت کو عزت بخشی. صحابہ کرام اور ان کی غالب اکثریت نے اپنی معاشی کفالت کے لئے تجارت کو ہی ذریعے معاش بنایا ہوا تھا ہجرت سے قبل مسلمانان مکہ اسی پیشہ سے جڑے تھے ہجرت کر کے جب مدینہ گۓ تو تجارت کو ہی اپنا ذریعے معاش اختیار کیا- مدینہ منورہ کی تجارتی منڈیوں پر یہودی چھاےہوچھاے ہوۓ تھے جب اللہ نے انصار کو ایمان کی دولت سے سرفراز فرمایا تو تجارتی سربلندی بھی انہی کے حصہ میں آئی۔ تجارت اگر اسلامی اصول کی روشنی میں کیا جائے تو ایسی تجارت کی بڑی فضیلت آئی ہے اور ایسے افراد کو انبیاء؛ صدیقین کی معیت کی بشارت دی گئی ہے۔ ایک موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ
(ترمذی باب مَا جَاءَ فِي التُّجَّارِ وَتَسْمِيَةِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِيَّاهُمْ ) ۔
ترجمہ۔ جو تاجر تجارت کے اندر سچائی اور امانت کو اختیار کرے تو قیامت کے دن انبیاء صدیقین شہداء کے ساتھ ہوگا-
اسلام کے حکیمانہ نظام معیشت نے حج جیسے اہم فریضہ کی ادائیگی کے دوران سفر بھی اس کو جاری رکھنے کی اجازت دی ہے –
لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ
(سورۃ البقرۃ)
تم پر کچھ گناہ نہیں کی اپنے رب کا فضل تلاش کرو اس آیت کی تفسیر میں مفسرین فرماتے ہیں کی بعض مسلمانوں نے خیال کیا کہ راہ حج میں جس نے تجارت کی یا اونٹ کرایہ پر چلاۓ اس کا حج ہی کیا؟ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی-
تجارت یقیناً اچھی چیز ہے ،مگر اس کے حدود میں رہتے ہوئے یہ کیا جائے، ضرورت سے زیادہ اس میں مشغولیت ہلاکت اور موجب خسارہ ہے۔