خیال آرائی:مختار تلہری ثقلینی
پھر ستم توڑا ستمگر نے کسی لاچار پر
دِکھ رہے ہیں خون کے دھبے بہت اخبار پر
رہزنی کا اب گلہ کرنے سے بھی کیا فائدہ
کیوں بھروسہ کر کے نکلے قافلہ سالار پر
مٹ گئے آثارِ الفت اک زمانہ ہو گیا
نقش باقی ہیں ابھی تک وقت کے رخسار پر
توڑ ڈالیں گے کسی دن دیکھنا تیرا غرور
نام لکھیں گے لہو سے ہم تری تلوار پر
ہم سفر بننے سے پہلے ہی سمجھ لو سوچ لو
چلنا پڑ سکتا ہے اک دن جادۂ پر خار پر
وقت نے آسان کردی ہیں ہماری مشکلیں
آگیا ہم کو بھی چلنا اب رہِ دشوار پر
کیوں ہمیں شرمندگی ہوتی تمہاری جیت سے
مسکرائے تو ہو کم سے کم ہماری ہار پر
اپنا دامن دیکھئے اپنا گریباں دیکھئے
شوق سے انگلی اٹھانا پھر مرے کردار پر
کون آیا ہے عیادت کے لئے مختار آج
کس کے یہ آنسو پڑے ہیں بسترِ بیمار پر