غزل

غزل: اور یہ زخم ہرا رہنے دے

خیال آرائی: فیضان علی فیضان

اب محبت کو قضا رہنے دے
اور یہ زخم ہرا رہنے دے

اب نہ آنا تو پلٹ کر دلبر
اب مجھے غم پڑا رہنے دے

کیا کہا اپنا بنالوں تجھ کو
تجھ سے نہ ہوگی وفا رہنے دے

روٹھنے والوں کو منانے کی کوشش نہ کر
وہ خفا ہیں تو خفا رہنے دے

تیری تصویر ہی زخموں کا بنی ہے مرہم
اس کو زخموں پہ سجا رہنے دے

اس کی نس نس سے واقف ہوں
اس نے دی مجھ کو صدا رہنے دے

اب نہ آنا تو پلٹ کر دلبر
اب مجھے غم میں پڑا رہنے دے

دل نہ دینا تو کسی کو فیضان
اس کو سینے میں سجا رہنے دے

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com