نتیجۂ فکر: نیاز جے راج پوری علیگؔ، اعظم گڑھ
اپنی خود مُختاری کی خوشیاں منانے کے لئے
فخر سے ستّر چراغ اب تک جلائے جا چُکے
بیشتر محروم رنگوں سے رہے اور رہ گئے
آج کل پرسوں کے جو خاکے بنائے جا چُکے
المیہ اِس کو کہا جائے یا بیماری کوئی
ذہن و دِل کے کالوں کو اِس روشنی سے بَیر ہے
اِن کے ہاؤ بھاؤ سے یہ بات ہوتی ہے عیاں
اِن کی نظروں میں تو جو اپنا ہے وہ بھی غَیرہے
جانے کِتنی آنکھوں کے آنسو ابھی سُوکھے نہیں
جانے کِتنے چہروں پر ہی چھائی ہے پژ مُردگی
جانے کِتنے ہاتھوں میں ہیں داغ چھالوںکے ابھی
جانے کِتنے لوگ ہی سو جایا کرتے بُھوکے ہی
زِندگی کی دُھوپ میں حالات سے لڑتے ہُوئے
سائباں سے ہیں ابھی محروم کِتنے لوگ ہی
جانے کِتنے جِسم کپڑوں کو ترستے رہتے ہیں
دُور جانے کِتنے بُھوکوں سے ہے روٹی آج بھی
پُھول سے معصوم بچّے سوچ میں ہیں مُبتلا
آگے بڑھنے کے لئے مِلتا اِنہیں رستہ نہیں
کرتے ہیں مزدوری یہ بھی گھر چلانے کے لئے
حیف! صد حیف !! اِنکی قِسمت میں کوئی بستہ نہیں
کارخانوں اور مِلوں میں روزی روٹی کے لئے
دِن تو دِن ہیں دُور جو رہتے ہیں اپنی راتوںسے
گھولتے رہتے کثافت اور دُھواں یہ سانسوں میں
آہ !کتنے مِلتے جُلتے ہیں یہ زِندہ لاشوں سے
غور و فکر و تجزیہ اور کوشِشوں کے باوجود
ہیں دِلاسے اور وعدے کھوکھلے اب بھی بہت
کُچھ نہیں آتا سمجھ میں ہو گا کیا اِس دیش کا
ہاں نہیں کے درمیاں ہیں فاصلے اب بھی بہت
ہم جہاں تھے ہم وہیں ہیں یہ بھی کہہ سکتے نہیں
ہاں! مگر زنجیریں اب بھی ہیں پڑی کُچھ پَیروں میں
ایکتا ان ایکتا میں اِن کو راس آتی نہیں
آج بھی کُچھ لوگ اپنوں کو سمجھتے غیروں میں
آئین و قانون کا لازم ہے کرنا احترام
باز مَن مانی سے آئیں ہو کے نہ خود سَر چلیں
وقت کا جو تھا تقاضہ کل وہی ہے آج بھی
دیش کو خوشحالیوں کی راہ پر لے کر چلیں
جیتے جی مرنا پڑے یا زندگی ہو خوشگوار
زہر یا امرت بھرے ہوں ذہن اور دِل کے ایاغ
موسمِ گُلبار کی اُمّید ہے روشن مگر
دیکھئے کیا گُل کِھلاتا ہے اکہتّرواں چراغ
ہے ضروری دیش پریم اور دیش بھکتی کے لئے
ہم رہیں رنجِش عداوت بُغض و نفرت بُھول کر
ہوں خزاں میں بھی نُمایاں رنگ ساون کے نیازؔ
کاش! دیکھیں قومی یکجہتی کے جُھولے جُھول کر