از قلم: محمد شعیب رضا نظامی فیضی
چیف ایڈیٹر: ہماری آواز
گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔
ہم نے پچھلی تحریر میں آپ کو بتایا کہ کس طرح اب وہاٹس ایپ ہمارے ڈیٹا کو جمع کر اپنی مرضی کے مطابق بروے کار لا سکتا ہے۔۔۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہاجائے کہ وہاٹس ایپ کی غنڈہ گردی کرے گا یا ڈیجیٹل ڈکیتی کرے گا اور لوگوں کو ڈیجیٹل حکمرانی کرنے کا موقع فراہم کرائے گا۔ یہ انتہائی افسوس ناک خبر ہے مگر اب تک ملک کی حکومت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، نہ تو ابھی تک حکومت کا اس کے متعلق کوئی بیان سامنے آیا، نہ اس کی مخالفت کی بات ہوئی نہ اسے مذموم قرار دیا گیا۔ آخر ایسا کیوں؟ کیا حکومت مذکوہ کمپنی کو اس بات کی پابند نہیں کرسکتی ہے کہ وہ ہمارے ڈیٹا کو جمع نہ کرے اسے عام نہ کرے؟ جبکہ مذکورہ ویب سائٹ و ایپ کے استعمال کرنے میں ہم بھارتی لوگ سب سے آگے ہیں کہ تقریباً وہاٹس ایپ و فیس بک کے مجموعی یوزرز کا پانچواں حصہ بھارت کے باشندے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وہاٹس ایپ کی جدید پالیسی یوروپین یونین (برطانیہ ممالک) کے لیے نہیں ہے۔ وہاں کے یوزرز کے ڈیٹا نہ تو وہاٹس ایپ (کمپنی) جمع کرے گی اور نہ کہیں اور شیئر کرے گی۔ تو پھر ہمارے ملک کی حکومت کا اس سنگین معاملہ میں خاموشی چہ معنی دارد؟؟؟
ہمارے ملک کی وہ حکومت جو چھوٹے سے چھوٹے مسائل کو ایوانوں میں اچھال اچھال کر پیش کرتی ہے اور اس پر نئے نئے آرڈیننس (قانون) بناتی ہے جس کی زد میں کا بڑا حصہ آکر تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے، اس حکومت کو اس معاملہ میں کیا ہوگیا کہ اب تک خاموش تمشائی بنے بیٹھی ہے؟
جہاں تک وہاٹس ایپ کی جدید پالیسی میں ڈیجیٹل ڈکیتی کا سوال ہے کہ آخر اسے کس نے چھوٹ دی ہے تو اس داداگیری کی ذمہ دار بھی ہمارے ملک کی حکومت ہے؛ موجودہ بھی اور سابقہ بھی، جس نے ان جیسی کمپنیوں کو حد سے زیادہ چھوٹ دے کر ان کا حوصلہ بڑھا رکھا، آج نہیں سالوں سے کئی معاملوں میں ملک کی حکومت نے ان کمپنیوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا، ان پر کوئی لگام نہیں لگایا تو آج حال یہ ہے کہ یہ کمپنیاں بے لگام گھوڑے کی طرح اب ہمارے ذاتی معاملات کو عام کرنے پہ آگئی ہیں۔ ذیل میں ان چند امور پہ حکومت کو غور وخوض کرنا چاہیے کہ ان معاملوں میں ہم نے چھوٹ دے کر ان جیسی کمپنیوں کا حوصلہ بڑھادیا تھا مگر بہت ہوا اب نہیں۔۔۔
٭ سرکاری افسران کا وہاٹس ایپ، فیس بک یا دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹ اور ایپ کے (سرکاری کاموں میں) استعمال پر پابندی: کیوں کہ ایسا کرنا سوشل میڈیا پالیسی کے خلاف بھی ہے اور ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔
٭ ان سوشل میڈیائی کمپنیوں پر ٹیکس: جاننا چاہیے کہ ڈیٹا(مواد) ایک طرح کی پراپرٹی(مال وزر/جائیداد) بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے جس کے ٹرانسجیکشن (منتقلی) پر ٹیکس لگنا چاہیے کہ ہمارے ملک میں جائیداد کی منتقلی پر سالوں سے ٹیکس لگتا ہے۔ لہذا حکومت کو چاہیے کہ وہ ان کمپنیوں پر بھی ٹیکس عائد کرے تاکہ ان کا دماغ بھی ٹھکانے رہے اور سرکاری تجوری میں موٹی آمدنی بھی ہوتی رہے ویسے بھی سرکار کو آمدنی کی ضرورت ہے کہ آئے دن سرکاری کمپنیاں فروخت ہو رہی ہیں۔
٭وہاٹس ایپ استعمال کرنے والوں کے عمر کی تعیین اور اس پر سختی سے عمل: یہ بھی ایک حیرت انگیز بات ہے وہاٹس ایپ کی پالیسی کے مطابق وہاٹس ایپ استعمال کرنے والوں کی کم سے کم عمر تیرہ(۱۳) سال ہونی چاہیے اس سے کم عمر کے بچے وہاٹس ایپ نہیں استعمال کرسکتے مگر آج تعلیم کے نام پر خود حکومت ان جیسی سائٹس اور ایپس کو بڑھاوا دے رہی ہے جس کا برا اثر سماج ومعاشرے پر اتنا گہرا دکھ رہا ہے کہ بڑوں سے زیادہ چھوٹے اسی وہاٹس ایپ، فیس بک وغیرہ میں دن رات لگے رہتے ہیں جس کے سبب ان کی تعلیم وتربیت سب چوپٹ ہوئے جارہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ملک میں ۱۳ سال سے کم عمر والے بچے کسی بھی طرح وہاٹس ایپ وغیرہ سوشل میڈیا کا استعمال نہ کرسکے تاکہ ان کی تعلیم وتربیت پر اثر نہ پڑے۔
ان کمپنیوں کا من مانی طور پہ پالیس تبدیل کرنے پر روک لگانی چاہیے، حکومت نے اب تک ان کمپنیوں کے پالیسی رولز میں کبھی بھی مداخلت نہیں کی، جس کے باعث کمپنیاں اپنی من مرضی پالیسی بناتی آئی ہیں مگر اب حکومت کو بیدار ہونا چاہیے اور ان امور کی طرف توجہ دینی چاہیے کہ مذکورہ اور ان جیسی دوسری کمپنیوں کو اگر بھارت میں سب سے زیادہ یوزرز مل رہے ہیں انھیں بھارت میں سب سے بڑا بازار مل رہا ہے تو ان کی جواب دہی بھی طے کی جائے تاکہ ملک کی عوام ان کی دادا گیری سے محفوظ رہ سکے۔ اور ہم ایک ان چاہے خطرے سے محفوظ رہ سکیں جس کی زد میں آنے کے بعد صرف ہماری نہیں بلکہ اچھے اچھوں کی کھٹیاں کھڑی ہوجائے گی۔