تاریخ کے دریچوں سے

اسلامی حکومت کے چالیس سال

ازقلم: محمد شہادت حسین فیضی

پوری دنیا کی معلوم یا مرتب تاریخ میں ایک مختصر سی مدت کے اندر یعنی صرف چالیس سال میں ایک ایسا پرامن اور کلی طور پر تشدد سے پاک انقلاب جو نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے برپا ہوا،تاریخ عالم میں کہیں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔اس چالیس سالہ اسلامی حکومت کے ابتدائی دس سالوں کے سربراہ پیغمبر انقلاب صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم خود تھے،جنھوں نے مکہ سے مدینہ طیبہ ہجرت فرماکر غریب الوطنی میں سب سے پہلے مہاجرین و انصار میں اتحاد و یکجہتی کے لیے بھائی جارہ قائم کی۔ پھر اوس و خزرج کے تمام قبائل اور یثرب اور اس کے گردونواح میں موجود یہودیوں کے ساتھ دنیا کا پہلا تحریری عہد و پیمان کیا جسے میثاق مدینہ کہا جاتا ہے،
آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٰ وسلم کا یہ عہد نامہ ان کی مدینہ تشریف آوری کے آغاز میں قریشی اور مدنی مسلمانوں کے درمیان طے پایا ، یہ معاہدہ واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہے، پہلے حصے میں صرف مسلمانوں کے باہمی تعلقات اور حقوق و فرائض کی نشان دہی کی گئی ہے،جبکہ دوسرے حصے میں اہل اسلام اور یہود اور دیگر اہل مدینہ کے باہمی تعلقات ، حقوق و فرائض اور دیگر اہم امور کا ذکر ہے،میثاق مدینہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بصیرت الہامی کا شاہکار ہے۔
یعنی یہود ،مشرکین، کفار اور مسلمان مہاجرین و انصار کو ایک متحدہ امت قرار دیکر معاہدۂ امن تحریر کیا جس کو پہلا چارٹر آف اسلام کہا جاتا ہے۔
اسلام کی یہ خوبی رہی ہے کہ اس نے انسداد ظلم وجبر کے لیے جنگ و جدال کے بجائے معاہدۂ امن اور عفو و درگذر کی نیتی کو ہمیشہ فوقیت دی ہے۔ آقائے کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم قبول اسلام اور قیام امن کے لیے سخت سے سخت ترین شرائط کو بھی قبول کر لیا کرتے تھے جس کی سب سے بہترین مثال صلح حدیبیہ اور سن ۹/ہجری میں اہل طائف کا شرطیہ اسلام قبول کرنا ہے۔ اس طرح کی مثالیں سیکڑوں میں ہیں کہ آقا ۓ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ قیام امن کی پیشکش کی اور اس کو فوقیت دی اور سخت ناگزیر حالات میں آخری آپشن کی صورت میں ہی قوت کا استعمال کیا اور وہ بھی ریٹیلیش کے طور پر۔اس اسلامی حکومت کو جب بھی فتح و نصرت ملی،اس نے اپنی مغلوب و حریف اور جنگی قیدیوں کے ساتھ ایسی شفقت اور حسن سلوک کا برتاؤ کیا کہ اس جسمانی طور پر مغلوب قوم نے کچھ ہی دنوں کے اندر مسلمانوں کے اخلاق و کردار کی اسیر ہوکر ازخود اسلام کو قبول کرلی۔ عفو و درگذر جودو سخا ،رحمت و شفقت ،حلم و بردباری، یعنی ہر لمحہ دلوں کو جوڑنے کی پالیسی ، ذہن و فکر کو پاک و صاف کرنے کی نیتی، عقل و شعور کو محبت سے فتح کرنے کی تدبیر،تعلقات قائم کرنے اور رشتوں کو مضبوط کرنے پر ترکیز، صلہ رحمی اور دستگیری کی تلقین،چھوٹے بڑے ،امیر و غریب ،اپنے بیگانے، حتی کہ مجرموں ،ظالموں،جابروں، دشمنوں اور باغیوں تک کے انسانی اور بنیادی حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی اور دشمن جان کی بھی عزت نفس کا خیال کرنا۔ ہر ایک کو اس کی حیثیت سے زیادہ عزت دینا۔ یہ آقائے کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ اسوۂ حسنہ تھے جس نے انہیں انسانیت کا بلند ترین مینار ہدایت، رہبر اعظم ، رحمت عالم ، بے کسوں کے کس، بے سہاروں کے والی اور دم توڑتی انسانیت کا سب سے بڑا مسیحا بنادیا۔ وہ پیکر اخلاق جس نے اپنے اعلی اخلاق و کردار کے ذریعے صرف ١٠/ سال کی قلیل مدت میں دس لاکھ مربع میل میں حکومت قائم کرلی-

وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغ وادی سینا

نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یاسیں وہی طٰہٰ

اک عرب نے آدمی کا بول بالاکردیا
خاک کے ذروں کو ہم دوشِ ثریا کردیا

خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا

12/ ربیع الاول 11/ ھ مطابق 3/ جون 632ء کو آقائے کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد بلافصل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نائب رسول امیرالمومنین منتخب ہوئے، اول دن میں ایمان لانے والے اور آخری دن تک ساتھ رہنے والے اس مرد مجاہد نے اپنی بساط بھر حکومت اسلامی کو منہاج نبوت پر آگے بڑھایا اور اس کے دائرے کو وسیع تر کیا۔ 21/ جمادی الاخریٰ 13/ ہجری بمطابق 22/ اگست 634ء کو خلیفہ اول کے وصال کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ امیر المومنین منتخب ہوئے اور دس سال چھ ماہ پانچ دن اسلامی حکومت کے امیر رہے، اور یکم محرم 24/ہجری کو وصال فرمایا۔اس وقت یہ اسلامی حکومت ایشیاء سے نکل کر یورپ و افریقہ تک پھیل چکی تھی۔ پھر اس کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ منتخب ہوئے۔ انھوں نے بھی اسے خوب وسعت دی۔ آپ دنیا کے وہ پہلے اور آخری خوش نصیب شخص ہیں جن کی زوجیت میں یکے بعد دیگرے کسی نبی کی دو صاحبزادیاں آئیں۔ بارہ دن کم بارہ سال مسند خلافت پر رونق افروز رہے۔ ان کے دور اقتدار میں اسلامی حکومت اس وقت کی پوری دنیا میں سب سے عظیم حکومت کی شکل میں تھی۔ 18/ ذی الحجہ 35/ ہجری کو مؤمنانہ عظمت کے ساتھ باغیوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔اورحضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ امیرالمومنین منتخب ہوئے۔پانچ سال تک مسند خلافت پر متمکن رہ کر 18/ رمضان المبارک 40/ ہجری کو عبدالرحمن بن ملجم کے ہاتھوں شہید ہوئے۔اس کے بعد حضرت امام حسن ابن علی رضی اللہ تعالی عنہما خلیفۃ المسلمین منتخب ہوئے۔انھوں نے صرف چھ ماہ مسند خلافت پر متمکن رہ کر اقتدار اور خلافت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی جانب منتقل کردی۔اور اس کے ساتھ ہی خلافت علی منہاج النبوۃ کا خاتمہ ہوگیا اور پھر مسلمانوں میں دور امارت کی ابتدا ہوگئی جو نشیب و فراز کے ساتھ تقریبا تیرہ سو سال تک باقی رہی.اس ایک ہزار تین سو سالہ دور حکومت میں صرف 40/ سال اسلامی حکومت رہی۔
مسلمانوں کی حکومت کے عروج و زوال کی تاریخ پر بغور نظر ڈالی جائے توایک بات صاف نظر آ ئے گی کہ جب جب اسلام کے بنیادی عقائد و مسائل پر لوگوں کو جوڑنے اور مسلمانوں میں اتحادواجتماعیت کی کوشش ہوئی تو عروج حاصل ہوا اور جب فرقہ بندی اور اختلاف در اختلاف کی کوشش شروع ہوئی تو قوم مسلم زوال پذیر ہوتی چلی گئی۔
یعنی اتحاد جس کا نتیجہ عروج ہے کی ابتدا یکم ہجری کو میثاق مدینہ سے ہوئی اور انتشار جس کا نتیجہ زوال ہے کی ابتدا 18/ذی الحجہ 35/ ہجری کو امیر المؤمنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت سے ہوئی۔کہ وہاں سے ہی مسلمانوں میں آپسی اختلاف کی شروعات ہوئی۔ پھر منظم طور پر مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل ہونے لگا اور صرف 5/ پانچ سالوں میں 35/ہجری سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت 40/ ہجری تک تقریبا ایک لاکھ مسلمان شہید ہوئے۔جبکہ یہ اختلاف اور قتل و غارت گری عقائد کی بنیاد پر نہیں تھی بلکہ اس کا تعلق خالص سیاسی اور حکمرانی سے تھا اور پھر آگے چل کر اس اختلاف میں عقائد و فقہی مسائل بھی شامل ہوگئے جس سے اختلاف در اختلاف اور مزید قتل و غارت گری کا سلسلہ شروع ہوا‌۔ پھر اس میں اشراف اور ارذال، ذات، برادری، مسلک و مشرب، درسگاہی و علاقائی حتی کہ اساتذہ اور پیران طریقت کے نام پر بھی گروپ بندی، فرقہ بندی ،گروہی تصادم ، اور انتشارو بے چینی یہ سب مسلمانوں کا وطیرہ اور طرۂ امتیاز بن گیا۔ نتیجتاً تباہی و بربادی کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ مسلمانوں کا مقدر ہو گیا۔ مثلاْ اگر ہم ماضی قریب کے صرف 20/ سالوں کا جائزہ لیں تو یہ معلوم ہوگا کہ پچھلے 20/ سالوں میں 40 لاکھ مسلمان شہید ہوئے۔ ان شہداء میں%90 فیصد مسلمان مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔ بقیہ پانچ لاکھ مسلمان ہی کفار و مشرکین و یہود و نصاریٰ کے ذریعہ شہید ہوئے ہیں۔ لیکن تعجب ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود قیادت کے دم بھرنے والے لوگ مسلمانوں کے قائد نہ ہو کر اپنے فرقے یا اپنی برادری کے قائد بنے ہوئے ہیں۔ اور ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کے ڈیڑھ اینٹ کی ایک الگ مسجد بنا لی جائے تاکہ ہماری جاہلانہ قیادت باقی رہے۔
وہ قوم جو دنیا میں دنیا والوں کے ذریعے بنائے گئے رسم و رواج کو ختم کرکے اسلامی ایمانی اور قرآنی رسم و رواج کا پیکر بن کرصالح اور ایک خوبصورت معاشرہ کی تشکیل کے لیے آئی تھی، وہ پھر سے جہالت اور فرسودہ رسم و رواج سے منسلک ہوکر دہشت و وحشت کی علامت بن گئی۔ ضرورت ہےکہ پھر سے مسلمانوں کے دلوں میں علم کا چراغ روشن کیا جائے اور اپنے اور بیگانے کے ساتھ غیروں سے بھی میثاق مدینہ کے طرز پہ اتحاد کی کوشش کی جائے تاکہ یہ قوم جو ٹکڑوں میں بٹ کر اور باہم متصادم ہو کر تباہ و برباد ہو چکی ہے پھر سے شیرازہ بندی کے ساتھ عروج و ارتقاء کی جانب گامزن ہوسکے۔