غزل

غزل: یوں کدھر جاتے ہیں لوگ

نتیجہ فکر: اسانغنی مشتاق رفیقیؔ

محو حیرت ہوں، ازل سے یوں کدھر جاتے ہیں لوگ
لوٹ کر کوئی نہ آیا، کس سفر جاتے ہیں لوگ
سامنے گلشن ہے یا پھیلا ہوا صحرا کوئی
کچھ خبر اِن کو نہیں ہے، یوں کدھر جاتے ہیں لوگ
جب میں حاتم ہوں نہ گھر میرا ہے کعبہ کی طرح
میرے دروازے پہ آکر کیوں ٹہر جاتے ہیں لوگ
گویا میں میت ہوں، جس کے آخری دیدار کو
آکے میرے پاس چپکے سے گذر جاتے ہیں لوگ
وہ بڑا عیار ساحر ہے کہ خوں آشام ہے
کیوں امیرِ شہر کی آمد سے ڈر جاتے ہیں لوگ
ہے زباں پہ تیری الااللہ، دل ہے بت کدہ
تیری محفل سے کہاں لے کر اثر جاتے ہیں لوگ
حُسن تیرا عارضی ہے، اصلیت کچھ اور ہے
پھر بھی تیرے عشق میں کیوں جل کے مر جاتے ہیں لوگ
جانتے ہیں، کچھ بھی اب باقی نہیں ہے گاؤں میں
کس بھروسے پر دوبارہ اپنے گھر جاتے ہیں لوگ
لوگوں میں اخلاص تھا جب، تھے رفیقیؔ تم کہاں
اپنے مطلب کے لئے اب کچھ بھی کر جاتے ہیں لوگ

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com