خیال آرائی: فیضان علی فیضان
کچھ سنے اور کچھ سنائے ذرا
حال اپنا مجھے بتائے ذرا
تیرے بیمار کے ہیں حال برے
اس سے کہنا کہ مسکرائے ذرا
ہم پسند اس کو کر ہی جائیں گے
چائے کا کپ وہ لیکر آئے ذرا
اس کی ہجرت کا اب ملال نہیں
اس سے کہنا اور ستائے ذرا
میکشی ہم کو زیب دیتی نہیں
اس سے کہنا کہ چائے لائے ذرا
دیکھنا یار اس کے چہرے کو
رخ سے پردہ وہ اٹھائے ذرا
اب تو ہر دم نہیں مسکراتا ہوں
کوئی آ کر مجھے رلائے ذرا
بظاہر میں جو لیکر پھول آیا
دل میں رکھتا ہے کیا بتائے ذرا
دل یہ فیضان کا جگمگا اٹھا
جب وہ دل کے قریب آئے ذرا