از قلم : مجاہد عالم ندوی
استاد : ٹائمس انٹرنیشنل اسکول محمد پور شاہ گنج ، پٹنہ
رابطہ نمبر : 9508349041
اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللّٰہ تعالٰی کے بعد اگر کسی کو سجدہ کا حکم دیا جاتا تو وہ شوہر ہوتا ، شوہر کی قدر و قیمت ایک بیوہ عورت سے پوچھیے ، اس لیے کے شوہر اس کی عزت کی حفاظت کرتا ہے اور اس کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے ، اس کی ہر تکلیف میں اس کا ساتھ دیتا ہے اور شوہر عورت اور بچوں کو بھی خوش رکھنے کے لیے خون پسینہ ایک کر کے دن بھر کماتا ہے ، شوہر کی عزت کا مدار صرف پیسے پر نہیں ہے ، کیونکہ ایک سچے ساتھی کی پہچان یہی ہوتی ہے کہ وہ مال و دولت کو شاید ہی اس کے قدموں میں نہ ڈال سکتا ہو مگر ہر تکلیف میں اس کا ساتھ دے سکے اور شوہر اس کے بدلہ صرف دو ہی کاموں کا مطالبہ کرتا ہے ، بچوں کی اچھی پرورش اور شوہر کی اطاعت ، جب شوہر تھکا ماندہ گھر پہنچتا ہے تو بیوی کی ایک مسکراہٹ اس کی تھکان کو دور کر دیتی ہے ،
اللّٰہ تعالٰی نے مرد کو عورت پر فضیلت و فوقیت دی ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد عورت سے پیدائشی اعتبار سے قوی اور طاقتور ہے ، اور عورت کی نسبت زیادہ انتظامی صلاحتیں رکھتا ہے ، اپنے آپ کو محنت و مشقت میں ڈال کر مال کما کر عورت پر خرچ کرتا ہے ، ان خوبیوں کے باعث مرد کو عورت پر فضیلت و برتری حاصل ہے ، جیسا کہ باری تعالیٰ ہے ۔ "الرجال قوامون علی النساء ۔”
عورت شوہر کے لیے امن و سکون کا گہوارہ ہے ، نیک بیوی شوہر کے لیے اللّٰہ تعالٰی کی بڑی عظیم نعمت ہے ، حدیث نبوی ہے کہ ” دنیا کی بہترین دولت بیوی ہے ۔” مرد کے لیے بیوی ایک قیمتی عطیہ ہے ، خالق کائنات کا سب سے زیادہ قیمتی اور نادر و نایاب تحفہ ہے ، جو شوہر کی محبت و غم خواری کے لیے بھیجا گیا ہے ۔
اسی وجہ سے دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کا پابند بنا دیا گیا ہے تاکہ دونوں دکھ درد ، راحت و آرام ، خوشی و مسرت کو آپس میں تقسیم کر کے زندگی کی تمام دشوار گزار مراحل طے کر لیں ۔
بیوی پر شوہر کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ شوہر کی خدمت گزار اور اطاعت شعار ہو ، ہر جائز معاملے میں شوہر کی فرمانبرداری کرتی ہو ، یہی اس کے نیک ہونے کی دلیل ہے ، کیونکہ اللّٰہ تعالٰی نیک عورت کے بارے میں فرماتا ہے کہ نیک بیویاں اپنے شوہروں کا کہنا مانتی ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس عورت کی موت ایسی حالت میں ہو کہ مرتے وقت اس کا شوہر اس سے خوش ہو تو وہ عورت جنت میں جائے گی ، اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد گرامی ہے کہ اگر شوہر عورت کو یہ حکم دے کہ اس پہاڑ کے پتھر کو اٹھا کر اس پہاڑ پر لے جائے اور اس پہاڑ کے پتھر کو اس پہاڑ پر لائے تو اس کو یہی کرنا چاہیے ، اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ مشکل سے مشکل ، دشوار سے دشوار کام کا بھی اگر شوہر حکم دے تو جب بھی عورت کو انجام دینا چاہیے ، تاکہ شوہر کے فرمان کی تکمیل ہو جائے بشرطیکہ اس کام کا حکم شریعت کے خلاف نہ ہو ۔
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر اللّٰہ تعالٰی کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں ، اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ شوہر کی برتری کو جانے اور اس کی فضیلت و عظمت کو جانے ، اس کی تعظیم و توقیر کر کے ، دل و جان سے ان کے تمام کاموں کو خوش دلی سے کرے ، شوہر کا حکم اس کے حق میں فرض ہے ، اس کے حکم کو مانے اور ہرگز اس کے حکم کے خلاف کوئی کام نہ کرے ۔
خاوند کا ایک حق یہ ہے کہ بیوی خاوند کے مال و جائیداد اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور شوہر کی اجازت کے بغیر اس کا کوئی سامان کسی کو نہ دے ۔
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ کون سی عورت بہتر ہے ؟ فرمایا وہ عورت جب خاوند کوئی حکم دے تو اس کی تکمیل کرے ، اس کو دیکھے تو خوش ہو جائے ، اپنے مال و جان میں اس کی مرضی کے خلاف نہ چلے کہ اسے ناپسند ہو ۔
خاوند کا ایک حق یہ ہے کہ اپنے شوہر کی غیبت نہ کرے ، اور دوسری عورتوں کے سامنے اس کے عیب کو ظاہر نہ کرے کہ اس میں شوہر کی ناشکری ہے ، جو عظیم گناہ ہے ۔
رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ مجھے دوزخ دیکھائی گئی تو اس میں زیادہ عورتیں تھیں ، عورتوں نے کہا کہ یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ایسا کیوں ؟ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زیادہ ملامت کرنے اور شوہر کی ناشکری کی وجہ سے ۔
بیویوں کو چاہیے کہ شوہر کی اطاعت کریں ، ان کا خیال رکھیں ، اور ان سے ان چیزوں کا مطالبہ نہ کریں ، جو اس کی استطاعت میں نہ ہو ، اس کے ضمن میں ایک بات بتانا چاہتا ہوں کہ صحابیات کو چکی پیستے پیستے ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے تھے ، مگر وہ شوہر سے اس کی شکایت تک نہیں کرتی تھیں ۔
آج تو ہر کام کے لیے سہولیات فراہم ہیں ، مگر عورت سستی کرتی ہے ، اتنی سست ہو گئی ہے کہ شوہر جب شام میں تھکا ماندہ گھر آتا ہے تو ایک کلاس پانی بھی نہیں دیتی اور نہ ہی کھانا دیتی ہے ، بعض عورتیں سوتی رہتی ہیں اور بعض عورتیں ٹی وی میں مصروف رہتی ہیں ، شوہر کے آنے کا خیال بھی ذہن سے نکل جاتا ہے ، جس سے شوہر کو بہت تکلیف پہنچتی ہے ۔
شوہر کی خدمت میں عار محسوس نہ کرے بلکہ اپنی سعادت سمجھے ، اس خدمت کی مثال میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر شوہر کے سارے جسم پر پھوڑے نکل آئیں اور ان میں پیپ اور خون رستا ہو ، تو یہ صاف کرے تب بھی حق ادا نہ ہوگا ۔ (نسائی )
شوہر کی تمنا ہوتی ہے کہ بیوی اس کے گھر میں رہے ، ایسا نہ ہو کہ ہر تیسرے دن میکے جا رہی ہو ، یا جب وہاں جائے تو طویل وقت گزارے ، اس معاملے کو شوہر کی منشاء کے مطابق چلانا چاہیے ، اگر والدین سے ملاقات مقصود ہے ؟ کبھی وہ آجائیں کبھی یہ چلی جائے ، اور شوہر پر اس کا بوجھ بھی نہ ڈالے کہ ہر بار وہ اپنی تمام دینی اور دنیاوی مصروفیات کو چھوڑ کر اس کو لے کر بھی جائے ، اور واپس بھی لائے ، بلکہ یہ خدمت اپنے والد یا بھائی وغیرہ سے بھی لے لے ، اور شوہر کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ بیوی کو اس کے والدین کے گھر لے جانے اور واپس لانے سے بالکل ہی انکار کر دے اور یہ کہے کہ میری ذمہ داری نہیں ہے ، بلکہ اعتدال اختیار کرے ، بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنی خوشی پر شوہر کی خوشی کو ترجیح دے ۔
بیوی چونکہ شریکِ حیات کہلاتی ہے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ شوہر کے تمام ان امور کی حفاظت کرے ، جن کا اظہار شوہر کو ناپسند نہیں ، شوہر کے گھر کی باتیں اپنے میکے والوں کو نہ بتائے ، شوہر کے والدین کی اور بھائی بہنوں کی شکایت کا تذکرہ وہاں نہ کرے ، بلکہ ان رازوں کو سینے میں دبا دے ، اگر راز کی حفاظت نہیں کرے گی تو اللہ تعالیٰ کی مجرم ہوگی اور شوہر کی بھی مجرم ہوگی۔