از قلم: ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری
👈 اے وہ لوگوں جو تحریرات کو کاپی کرکے پھر اس پہ اپنا نام لکھ دیتے ہو۔ تم جانتے ہو جو لکھنے والے نے الفاظ تخلیق کیے ہیں ، جو اس کی تحریر ہے ، جو اس کے جملے ہیں۔ تمہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ اُسے یہ عزیز از جان ہوتے ہیں۔
👈 اور تم اّسی تحریر یا تصنیف میں لفظوں کو پھیر کرکے اپنا نام لکھ دیتے ہو۔ اُسے کتنا دُکھ ہوتا ہے ؟ تمہیں اس بات کا اندازہ نہیں۔ بس آپ اس کے دکھ ، تکلیف کو اس بات سے اندازہ لگائیں کہ اسے یہ تحریر عزیز از جان ہوتی ہے۔
👈 اگر کوئ شخص آپ کی تحریر ، تألیف میں ردوبدل کرے تو تمہیں کتنا دکھ ہوتا ؟؟ اسی طرح میرے بھائ سامنے والے کو بھی بہت دکھ ہوتا ہے۔ جب وہ اپنی تحریر میں کسی اور نام دیکھتا ہے۔
👈 جمال الدین قاسمی علیہ الرحمہ نے یہاں تک کہ لکھا ہے کہ تصنیف و تالیف کے میدان میں یہ بہت ہی اہم بات ہے کہ علمی نکات ، مسائل ، فوائد قائلین کی جانب منسوب کریں تاکہ کسی کی محنت پر اپنا نام مت لگے۔ اور ایسا نہ ہو کہ اونچی دکان پھیکا پکوان کا مصداق بن جائے۔ (قواعد التحدیث 40)
👈 کسی کی تحریر یا تصنیف اٹھا کر اس پہ اپنا نام لکھ دینا۔ کیا یہ اخلاقا و شرعا جائز ہے ؟؟
👈 اے میرے بھائ!! شاید آپ کو معلوم نہ ہو کہ جو لکھنے والا چند سطروں کی تحریر لکھتا ہے۔ اُس کو اِس کیلئے کتنی محنت کرنی پڑتی ہے۔ آپ کے سامنے تو چند سطروں کی تحریر ہے۔لیکن لکھنے والا اس کیلئے نہ جانے کتنی کتب اور اقوال علماء اور اپنے ماضی کے تجربات کو جمع کرتا ہے۔ بسا اوقات لکھنے والے کو چند سطروں کی تحریر کیلئے کئ کئ دن لگ جاتے ہیں۔ پھر جاکر یہ چند سطروں لکی تحریر تیار ہوتی ہے۔
👈 اور آپ 2 منٹ میں اُس کی تحریر کو کاپی کرکے اس پہ اپنا نام لکھ دیتے ہو؟۔ کیا آپ کو ضمیر اس طرح کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ کہ کسی کی کاوش و محنت پر اپنا نام لکھ دو ؟؟
👈 لہذا!! اے میرے بھائیو!! اگر آپ اس کی تحریر کو شیئر نہیں کرنا چاہ رہے۔ تو خدارا اس تحریر پہ اپنا نام لکھ کر شیئر بھی مت کریں۔ یا اُس کا نام مٹا کر آپ اس کی تحریر کو ایسے بھی شیئر مت کریں۔