تحریر: محمد مجیب احمد فیضی
بلرام پوری ،استاذ/ دارالعلوم محبوبیہ رموا پور کلاں اترولہ ،بلرام پور ۔رابطہ:۸۱۱۵۷۷۵۹۳۲
email:faizimujeeb46@gmail.com
شیخ الحدیث "علامہ عبدالمصطفی اعظمی "رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب مستطاب "سیرت مصطفی”صفحہ، 697 /پر تحریر فرماتے ہیں:حضرت سیدتنا فاطمۃ الزھراء سیدۂ کائنات،خاتون جنت،رضی اللہ عنہا
شہنشاہ کون ومکاں صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی دختر نیک اختر ہیں، مگر سب سے زیادہ لاڈلی اور پیاری صاحبزادی ہیں۔
آپ کا اسم گرامی وقار "فاطمہ” ہے،لقب مبارک زھراء اور بتول ہیں۔
ولادت باسعادت
آپ کے سال پیدائش میں اختلاف ہے،بعض لوگوں نے کہا کہ جب نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف اکتالیس برس کی تھی،آپ پیدا ہوئیں اور کچھ لوگوں نے لکھا ہے کہ اعلان نبوت کے ایک سال قبل آپ کی ولادت ہوئی۔
علامہ جوزی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
اعلان نبوت سے پانچ سال قبل آپ رضی اللہ عنہا کی ولادت باسعادت ہوئی،جب کہ خانہ کعبہ کی تعمیر ہورہی تھی۔
(المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی: ج/۴)
فاطمہ نام رکھنے کی وجہ:
حضور رحمت عالم فخربنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے۔آپ نے فرمایا: اس کانام (میری بیٹی) فاطمہ اس لئے رکھا گیا کیوں کہ اللہ جل مجدہ الکریم نے اس کو اور اس سے سچی محبت کرنے والوں کو جہنم سے آزاد کیا۔
(کنزالعمال، فضل اہل البیت مفصلا :ج/۱)
القاب کی وجہ تسمیہ
مفسر قرآن ،شارح حدیث حکیم الامت مفتی "احمد یارخاں نعیمی "رحمۃ اللہ علیہ نام اور لقب کی وجہ تحریر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:اللہ تعالی نےجناب فاطمہ
رضی اللہ عنہا ،آپ کی اولاد اور آپ کے محبین کو جہنم سے دور کیا ہے اسی لئے آپ کا نام "فاطمہ "ہوا ہے۔
کیوں کہ آپ دنیا میں ہوتے ہوئے بھی دنیا سے الگ تھلگ تھیں لہذا "بتول” لقب ہوا۔
"زہرا ” بمعنی کلی۔
آپ جنت کی کلی تھیں، حتی کہ آپ کی کبھی ایسی کیفیت نہ ہوئی جس کیفیت سےاس دنیا کی خواتین دوچار ہوتیں ہیں، بلکہ خاتون جنت کے جسم مبارک سے خوشبو آتی تھی جس کو مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سونگھا کرتےتھے اس لئے آپ رضی اللہ عنہا کا لقب "زہرا” ہوا۔ (مرأۃالمناجیح، کتاب المناقب)
چوں کہ خاتون جنت رضی اللہ عنہا بچپن ہی سے اپنے پدر شفیق آقا جان وایمان صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر رحمت اور فیضان سے ظاہری وباطنی طہارت وپاکیزگی حاصل کرچکی تھیں۔حتی کہ آپ حیض ونفاس سے بھی ایک دم منزہ اور مبرا تھیں۔
جیساکہ علامہ علاءالدین متقی ہندی رحمۃ اللہ علیہ سیدہ کائنات کی شان میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں،والد ماجد زہرا نے ارشاد فرمایا:
"میری بیٹی فاطمہ انسانی حوروں کی شکل میں حیض ونفاس سے پاک ہے”۔
(کنزالعمال)
سہی کہا تھا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے ،شعر:
صادقہ،۔۔صالحہ۔۔،صائمہ۔۔،صابرہ۔۔۔
صاف دل نیک خو پارسا شاکرہ ۔۔۔۔
عابدہ، زاہدہ، ساجدہ ، شاکرہ۔۔۔۔۔۔
سیدہ زاہدہ ۔۔۔۔طیبہ طاہرہ ۔۔۔۔۔۔۔
جان احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام
صحابئ رسول حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جوکہ افقہ صحابہ میں سے ہیں ،جن کے متعلق خلیفۂ دوم سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے "جب تک عبداللہ بن مسعود فتوی نہ صادر کردیں دوسرا کوئی ان سے پہلے فتوی نہ دیا کرے۔” آپ فرماتے ہیں کہ سرکار دوعالم ،نور مجسم ،سید عالم نے ارشاد فرمایا: ذرا سوچئے!! عبداللہ بن مسعود کی روایت کتنی مستحکم ہوگی۔
"ان فاطمۃ احصنت فرجھا فحرم اللہ ذریتھا علی النار "ترجمہ:بےشک فاطمہ رضی اللہ عنہا نے پاک دامنی اختیار کیا تو اللہ عزوجل نے جہنم پر آپ کی اولاد کو حرام قرار دیا۔ (المستدرک للحاکم، معرفۃ الصحابۃ،ج/4)
تصویر مصطفی
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے چال ڈھال،شکل وشباہت (رنگ روپ) بات چیت میں فاطمہ عفیفہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی کو حضور اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ نہیں دیکھا اور جب خاتون جنت رضی اللہ عنہا نبی کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی استقبال کے لئے کھڑے ہوجاتے آپ رضی اللہ عنہا کا ہاتھ تھام کر اس کو بوسہ دیتے اور حضور آپ کو اپنی جگہ بٹھاتے،آگے ملت کی ماں کہتی ہیں ،اور جب حضور آپ کے یہاں تشریف لے جاتے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ان کی تعظیم کے لئے قیام فرماتیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں کو تھام کر بوسہ دیتیں اور اپنی جگہ اپنے بابا جان کو بٹھاتیں۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ ماجدہ سے خاتون جنت،سیدۂ کائنات کے بارے میں استفسار کیا، تو فرمایا:”کانت کاالقمر لیلۃ البدر” ترجمہ:یعنی سیدۂ کائنات چودہویں
چاند رات کے مانند حسین وجمیل تھیں۔”
رسول اللہ کی جیتی جاگتی تصویر کودیکھا
کیا نظارہ جن آنکھوں نے تفسیر نبوت کا
فاطمہ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے
اللہ کے حبیب دونوں عالم کے طبیب حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دختر نیک اختر کے متعلق ارشاد فرمایا : "فاطمہ تمام جہانوں کی عورتوں اور سب جنتی عورتوں کی سردار ہیں۔” مزید فرمایا:”فاطمہ میرا ایک ٹکڑا ہے جس نے اس کو ناراض کیا اس نے مجھ کو ناراض کیا۔”
اور ایک روایت میں ہے،ان کی پریشانی میری پریشانی اور ان کی تکلیف میری تکلیف ہے۔ (مشکوۃشریف، مناقب)
ذکرکردہ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ احکم الحاکمین نے خاتون جنت،حضرت سیدتنا فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا کو کس قدر فضائل حمیدہ اور کمالات کثیرہ سے نوازا تھا حتی کہ نبی نے آپ کی خوشی کو اپنی خوشی اور آپ کی ناراضگی کو اپنی ناراضگی قرار دیا یہاں ان بد نصیبوں کے لئے مقام غوروطلب ہے جو سیدۂ کائنات کی شان میں گستاخیاں کرنے سے گریز نہیں کرتے اور آپ کی ناراضگی مول لے کر اخروی تباہی کا سامان مہیا کرتے ہیں۔
شعر
باغ جنت کے ہیں بہر مدح خوان اہل بیت
تم کومژدہ نارکا! اے !دشمنان اہل بیت
سیدہ فاطمہ کا ذوق نماز
حضرت شیخ محدث حق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ "مدارج النبوۃ”میں نقل فرماتے ہیں:حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے اپنی والدہ ماجدہ سیدتنا فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا کو دیکھا بسااوقات آپ رضی اللہ عنہا، گھر کی مسجد کے محراب میں رات بھر نماز میں مشغول رہتیں یہاں تک کہ صبح طلوع ہوجاتی۔(مدارج النبوۃ،مترجم،پنجم)
خاتون جنت کا نکاح
حضرت شیخ شعیب حریفیش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:کہ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک شادی کی ہو گئی تو بعض نیک خصلت ذہنوں میں آپ کا خیال آیا،مہاجرین وانصار کے معزز افراد نے پیغام نکاح پیش کیا لیکن رب کی رضا اس کی قضا کے ساتھ مخصوص ذات گرامی وقار صلی اللہ علیہ نے جوابا ارشاد فرمایا:”میں خدائی فیصلے کا منتظر ہوں”۔خلیفہ اول ،خلیفہ دوم نے بھی پیغام نکاح پیش کیا مگر انہیں بھی دربار نبوت سے یہی جواب ملا ۔
کہنا یہ ہے کہ حضرت فاطمہ کے نکاح کے لئے ایک سے بڑھ کر ایک امیر کبیر نے دعوت نکاح پیش کیا مگر سرکار دوعالم نے کسی کے پیغام کو قبول نہ فرمایا کچھ صحابہ کے ترغیب دینے پر مولائے کائنات نے حضور کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنا مدعا پیش کیا دروازہ کھٹکھٹایا حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کون؟ تو سرکار دوعالم نے فرمایا اٹھو اور دروازہ کھولو! "یہ وہ ہیں:جن سے اللہ اور اس کا رسول محبت کرتے ہیں اور یہ بھی ان سے محبت کرتے ہیں”۔اختصار کے ساتھ حضرت ام سلمہ کا بیان ہے کہ میں اٹھی تو دیکھا کہ نبی کے کہنے مطابق علی موجود ہیں ،حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم فورا نبی کی بارگاہ میں آئے اور سلام عرض کیا اور اس کے بعد زمین کریدنے لگے، ام سلمہ کابیان ہے کہ گویا کچھ کہنا چاہتے ہوں لیکن حیا کا پردہ حائل ہے۔نبی نے فرمایا:اے علی!کوئی کام ہو تو بتاؤ ہمارے ہاں! تمہاری ہر ضرورت پوری ہوگی ۔مولی علی نے عرض کیا:یارسول اللہ ! آپ مجھے اس وقت سے سنبھال رہے ہیں جب کہ میں ایک دم ناسمجھ تھا ۔آپ ہی دنیا وآخرت میں میرا وسیلہ وسہارا ہیں،مجھے پسند ہے کہ آپ کے ذریعہ میری پشت پناہی ہو، اس لئے امیدوں اور تمناؤں کا ایک مصباح لے کر حاضر خدمت ہوں ،میں آپ کی دختر نیک اختر کے نکاح کا پیغام لے کر آیا ہوں ۔
حضرت ام سلمہ کابیان ہے کہ نبی نے جب اتنا سنا تھا تو مسکرا پڑے اور آپ کا نورانی چہرہ مسرت وشادمانی سے کھل اٹھا،اور مسکراتے ہوئےاستفسار فرمایا کہ اے علی!تمہارے پاس کچھ ہے جس کے ذریعہ تم فاطمہ کا حق مہر ادا کروگے؟
مولائے کائنات نے عرض کیا:یارسول اللہ !میری حالت آپ سے پوشیدہ نہیں ،زرہ،تلوار،اور پانی بھرنے کے لئے ایک اونٹ کے سوامیرے پاس کچھ نہیں۔نبی نے فرمایا :
زرہ کے بدلے میں میں اپنی بیٹی کا نکاح تم سے کرتا ہوں اور میں تم سے خوش ہوں،اور اے علی !تمہیں مبارک ہو!اللہ نے زمین پر تمہارا نکاح فاطمہ سے کرنے سے پہلےآسمان میں تم دونوں کا نکاح کردیاہے۔تمہاری آمد سے پہلے آسمانی فرشتہ حاضرا ہواجس کو میں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا اس کے کئی چہرے اور پر تھے اس نے آ کر کہا:”الصلاۃوالسالم علیک یارسول اللہ!آپ کو مبارک ہو،ملن اور پاکیزہ نسل کی بشارت ہو” پھر اس کے بعد مولی علی کا نکاح حضرت فاطمہ کے ساتھ ہوگیا مختصر سے سامان جہیز کے ساتھ۔
وصال مبارک
حضور کے وصال ظاہری کے بعد خاتون جنت پر اس قدر غم مصطفی کا پہاڑ ٹوٹا کہ آپ کے لبوں سے مسکراہٹ ہی ختم ہوگئی اپنے وصال سے قبل فقط ایک بار مسکراتے ہوئے دیکھی گئیں۔چنانچہ چھ ماہ بعد ۳/رمضان المبارک ۱۱/ھجری منگل کی رات آپ نے وفات پائی اس طرح سرکار دوعالم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی پوری ہوئی کہ میرے خاندان میں سب سے پہلے تم ہی آکر مجھ سے ملوگی۔
آپ نے اپنے وصال مبارک سے کچھ قبل دو وصیتیں فرمائی تھیں۔
۱ ایک مولی علی کو کہ آپ میرے بعد حضرت امامہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کرلیں چنانچہ آپ نے وصال کے بعد اس پر عمل کیا جوکہ زبیر ابن عوام کے اہتمام سے ہوا
۲ جب میں دنیا سے جاؤں تو مجھے رات میں دفن کریں تاکہ میرے جنازے پر نامحرم کی نظر نہ پڑے۔
رب کی بارگاہ میں دعا ہے کہ بارالہ! خواتین اسلام کو خاتون جنت کےنقش قدم پر چلنے توفیق بخش،اور انہیں نامحرموں سے اجتناب کرنے کی توفیق رفیق بخش۔
نوٹ!بطور احسان اپنے مرنے کے بعد اپنے مال یا منفعت کا مالک بنانا۔