"خواتینِ اسلام کے لیے اسوۂ فاطمی نمونۂ عمل ہے…پاکیزہ زندگی کی اقدار کی تشکیل کے لیے شفاف آئینہ ہے۔”
تحریر: غلام مصطفیٰ رضوی
نوری مشن مالیگاؤں
اسلام کے کامل ترین نظام کا یہ حصہ ہے کہ طبقۂ نسواں کے لیے بھی زندگی کی تعمیر و تشکیل کا مکمل نظام اور قانون موجود ہے۔ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حیاتِ طیبہ اس کی مثال ہے۔ آپ نے بارگاہِ نبوت سے جو فیض حاصل کیا؛ اُس کی اشاعت مدتوں کی۔ صحابیات کو مسائل سے آگاہ کرتیں، ان کی باقاعدہ تربیت کا انتظام کیا ہے اُم المؤمنین نے۔ اسلام کے حقوقِ نسواں کے نظام کی ترسیل مؤثر طریقے سے اُم المؤمنین نے کی؛ اوران تمام پہلوؤں کو بھی اُجاگر کیا جن کے ذریعے ایک خاتون اپنی زندگی کو مقاصد تخلیق کے ضابطوں کی تکمیل کے ساتھ گزار سکے۔ اس طرح اسلام کے فطری نظام کی ترویج کا رول ماڈل پیش کیا ہے اُم المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے… یوں ہی خاتونِ جنت سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کی حیاتِ طیبہ بھی کئی جہتوں سے ممتاز، نمایاں، بے مثل، عدیم النظیر ہے؛ جن سے درس پا کر طبقۂ نسواں کا وقار بحال ہو سکتا ہے، حقوقِ نسواں کے تحفظ کے لیے آپ کی ذات مشعلِ راہ بھی ہے اور نشانِ منزل بھی۔
چند خصوصیات:
[۱] سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کی ذات ممتاز ہے؛ اس لیے کہ بنتِ رسول ہیں، صاحب زادیِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
[۲] تاج دارِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اپنی آغوشِ تربیت میں رکھ کر مثالی خاتون بنایا۔ جن کی ذات پاک قیامت تک کے لیے وقارِ نسواں کی تابندگی کا مظہر بن گئی ۔
[۳] جب بھی تقدسِ نسواں اور عفتِ بنت حوا کی بات کی جائے گی تو سیرتِ فاطمۃ الزہراء مثال میں پیش کی جائے گی۔
[۴] خواتین کے لیے کامیاب زندگی کا سب سے نمایاں باب ہے سیرتِ فاطمۃ الزہراء۔ طبقۂ نسواں کے لیے عزم و یقیں کے بلند مینار کا نام ہے سیدۂ کائنات۔
[۵] باب العلم خلیفۂ چہارم شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زوجہ جیسی عظیم نسبت بھی سیدہ فاطمۃ الزہراء کو حاصل ہے۔
[٦] اسلام کی شرعی سرحدوں کی پاس بانی کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کرنے والی ذات "حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ” کی تربیت جس والدہ کی گود میں ہوئی؛ اسی کا نام حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء ہے۔ گویا صبر و استقامت کا درس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عنایت سے دو دو نسبتوں سے امام حسین کو حاصل ہے۔ اس لیے کہ حضرت علی و حضرت فاطمہ نے ریگزارِ کربلا میں دین کی اساس کے لیے صبر و استقامت کے ساتھ اسلام پر جاں نثاری کا جو درس دیا تھا؛ امام حسین نے اس کی مکمل پاسداری کی۔ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کا ایثار، فکرو تدبر اور مثالی زندگی بھی سیدہ فاطمہ کی عظمت کا نقشِ جمیل ہے۔
[۷] جنتی خواتین کی سردار ہیں سیدہ فاطمۃ الزہراء؛ جن کے فیضانِ کرم سے طبقۂ نسواں اِس قدر نوازا گیا کہ جب بھی کسی خاتون کی دین کے لیے شجاعت و قربانی کا ذکر کیا جائے گا؛ اُس کی حیات کی تشکیل؛ اور فکر کی تعمیر میں درسِ فاطمی نمایاں دکھائی دے گا۔
[۸] بارگاہِ نبوی سے نسبت و قرب کے سبب جس قدر عظیم اختیارات و سربلندیوں سے آراستہ تھیں؛ اس کا اندازا ہماری معمولی عقلیں نہیں لگا سکتیں؛ ان سب کے باوجود سادہ زندگی، اور رضائے الٰہی کے لیے قناعت و صبر کا جو نمونہ آپ نے پیش کیا وہ مثالی بھی ہے؛ اور دُنیا میں بسنے والی ہر خاتون کی زندگی کو پاکیزہ بنانے کے لیے رول ماڈل بھی،
[۹] آپ کی ذات تمام ظاہری و باطنی خوبیوں سے آراستہ تھی؛ اسی کا نتیجہ ہے کہ آپ کے مقام تقدس اور خوبیوں کے بیان کو دفتر بھی ناکافی ہیں-
[۱۰] اسلام کے قوانین برائے نسواں کو چیلنج کرنے والے حیاتِ سیدہ فاطمۃ الزہراء کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ کس قدر پاکیزہ و مطہر و عظیم مقام؛ اسلام نے خواتین کو دیا؛ اس کی مثال کسی بھی مذہب یا ازم یا نظریے میں نہیں پیش کی جا سکتی۔ تاریخ انسانی ایسی کم ہی مثالیں پیش کر سکتی ہے جن کے سرے پر کسی خاتون کی انقلاب بداماں زندگی نے تعمیر فکر ونظر کا فریضہ انجام دیا ہو! انقلاب آفریں ذات ہے سیدہ فاطمہ کی۔
سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے مناقب و شان میں یہ پیاری روایت ہے: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ میں نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ اس لیے رکھا ہے کہ اللہ نے اس کو اور اس کے محبوبوں کو دوزخ سے جدا کیا ہے۔ (صواعق محرقہ،ص۱۵۱)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ بے شک فاطمہ پاک دامن ہے اور اللہ نے اس کی اولاد پر دوزخ کو حرام فرمایا ہے۔ (ابونعیم المستدرک حاکم،ص۱۵۳)
پیکر صبر و حیا، استقامت و تقویٰ کی مظہر، نبوی آغوشِ تربیت کی پروردہ سیدہ طیبہ زاہدہ عابدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا کردار اپنا کر حقوقِ نسواں کا تحفظ بھی کیا جا سکتا ہے اور خواتین کی عصمتوں، عظمتوں، آبروؤں کو موجودہ جدیدیت کی وحشی تہذیب کا لقمۂ تر بننے سے بچایا جا سکتا ہے۔ ایسی باوقار خاتون کے کردار کو اُجاگر کر کے مغرب کے بے حیا کرداروں کی قلعی کھولی جا سکتی ہے؛ بکتی حیا، لٹتی عصمت کو بچایا جا سکتا ہے۔ ضرورت ہے کہ سیدہ فاطمۃ الزہراء کے کردار کو موجودہ عہد کی خواتین میں نمایاں کیا جائے۔ خلافِ شرع کاموں سے بچ کر اسلام کے حکم پردہ کی پاس داری کی جائے۔ آج کا اَلمیہ یہ بھی ہے کہ پردے کی بات کرنے والے پیشہ وَر واعظین بھی اسکرینوں کے ذریعے خواتین میں خود کو نمایاں کر کے بے پردگی کی تعلیم دے رہے ہیں؛ انھیں فاطمی درسِ حیا و پاس داریِ پردہ سے سبق لینا چاہیے اور حضرات حسنین کریمین کی تعلیمات کی دعوت و تبلیغ کو مطمح نظر بنانا چاہیے تا کہ نبوی انقلاب کی تازہ ہواؤں سے دلوں کی کلیاں کھل اُٹھیں اور گلشنِ حیات مہک مہک اُٹھے ؎
کیا بات رضاؔ اُس چمنستانِ کرم کی
زہرا ہے کلی جس میں حسین اور حسن پھول
٭٭٭