محمد مجیب احمد فیضی بلرام پوری
استاذ/دارالعلوم محبوبیہ رمواپور کلاں اترولہ بلرام پور۔رابطہ:۸۱۱۵۷۷۵۹۳۲
email:faizimujeeb46@gmail.com
اللہ رب العزت کا بے پایاں کرم اور اس کا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں ان بارہ مہینوں میں ایک مہینہ رمضان المبارک کا عطا کیا ہے،ماہ رمضان المبارک آگیا،یہ بڑا مبارک مہینہ ہے،اس ماہ کاروزہ ہم لوگوں پر فرض کیا گیا ہے۔ اس ماہ کی رفعت وعظمت کے متعلق احادیث نبویہ میں بڑی فضیلت آئی ہے۔اس کی تقدس،اہمیت وافادیت سے کسی کو بھی انکار نہیں،
اس ماہ میں آسمان کے دروزے کھول دئیے جاتے ہیں،جہنم کےدروزے بند کردیئے جاتے ہیں،شرکش شیاطین زنجیروں میں مضبوطی کے ساتھ جکڑ دئیے جاتے ہیں،اس ماہ میں اللہ نے ایک ایسی رات رکھی ہے، جو ہزار مہینوں سے افضل ہے،جو شخص اس رات کی خیر وبرکات سے محروم رہا،وہ بڑا ہی بدںصیب رہا۔حدیث مصطفی میں اس کو شہر اللہ کہا گیا ہے۔
اور یہ وہ مقدس مہینہ ہے جس میں قرآن لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف دفعۃ واحدۃ نازل کیا گیا،پھر وہاں سے سید الملائکہ حضرت جبریل امین کے ذریعہ مصلحت اور ضرورت کے حساب سے تھوڑا تھوڑا کرکے تقریبا تئیس برسوں میں مکمل ہوا،جس کا تذکرہ اللہ جل مجدہ الکریم نے اپنے کلام بلاغت کے سورہ "بقرہ”میں کچھ اس طرح کیا ہے:
چنانچہ اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا :ترجمہ: "رمضان کا وہ مقدس مہینہ، جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے”۔ (البقرۃ)
اللہ رب العزت کا یہ فضل وکرم نہیں تو اور کیا ہے کہ وہ اس ماہ میں اپنے بندوں کے گناہوں کو جلا کر خاکستر فرمادیتا،
بشرط کہ بندہ اس کے فرامین پر عمل تو کرے، اللہ اس کے رسول کا کہا تو مانے،شریعت پر عمل تو کرے،طریقت کو گلے تو لگائے،اس ماہ کا روزہ رکھ کر ماہ صیام کااحترام تو کرے،ایمان واحتساب کے ساتھ رب کی بارگاہ میں خیر ومغفرت کا طالب تو ہوئے، اپنے کئے ہوئے پر نادم پشیمان تو ہوئے،
وہ سب سے بڑا کریم ہے،سب سے بڑا رحیم ہے،اس کی عطا کا حال تو یہ ہے جب چاہے، جسے چاہے ،جہاں چاہے، جو عطا کردے۔اگر وہ چاہ لے نا!تو بادشاہ کو پل بھر میں فقیر بنادے،اور اگر وہ چاہ لے تو پل بھر میں فقیر کو بادشاہ بنادے۔
جب وہ عطا کرنے پر آتا ہے تو دیکھا گیا ہے مانگنے والوں کے دامن تنگ ہوجاتےہیں، مگر اس کے خزانہ قدرت میں کچھ بھی کمی نہیں آتی۔
اللہ تبارک تعالی جوکہ اپنے بندوں پر ستر ماؤں سے زیادہ مہربان ہے ایک ماں کی محبت کا حال ہم آپ کو لفظوں میں نہیں بتا سکتے،یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے علم وفن کے دانشوروں نےجب اس کی محبت کو لفظی جامہ پہنانا چاہا تو یہ کہہ کر خاموش ہوگئے کہ ماں کی محبت کا لغت میں کوئی لفظ ہی نہیں ہے اس لئے ماں کی محبت کو ممتا سے تعبیر کرنا شروع کردو،تو جو رب اپنے بندوں پر ستر ماؤوں سے کہیں زیادہ مہربان ہے اس کی محبت کا کیا حال ہوگا،اس کی عطا وبخشش کا کیاحال ہوگا،جب ایک ماں اپنے پوت کی ہرخواہش کی تکمیل کے لئے شب روز کوشاں رہتی ہے تو جس رب ذوالجلال نے ہم سب کو پیدا کیا ہے ،عدم سے وجود بخشا ،وہ کب چاہے گا کہ میرا بندہ میری بارگاہ سےخالی دامن لوٹے بلکہ اس کی عطاؤوں کا حال تو یہ ہوگا،
شعر
جومانگنے کا سلیقہ ہے اس طرح مانگو
درکریم سے بندے کو کیا نہیں ملتا۔۔۔۔
اللہ رب العزت کا کتنا بڑا کرم ہے کہ اس نے ہمیں رمضان المبارک دیا اور اس میں تین عشرے رکھے اور ہر ہر عشرہ کو الگ الگ خوبیوں سے نوازا۔چنانچہ اس نے ہمیں پہلا عشرہ عطا کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ رمضان المبارک کا جو پہلا عشرہ ہے وہ رحمت کا عشرہ ہے
گویا ہمیں ایک اشارہ ملا کہ اس عشرے میں خوب خوب دل کھول کر رب سے اس کی رحمت کا سوال کرو ! اس کی رحمتوں، عنایتوں، اوربرکتوں کو مانگ لو! اس نے ہمیں دوسرا عشرہ عطا کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں ارشاد فرمایا: "رمضان کا دوسرا عشرہ مغفرت کا،اور تیسرا عشرہ نجات کا ہے "گویا رب کی طرف اور نبی کے واسطے سے ایک اشارہ ملتا ہے ،اے گنہ گاروں ،اے سیاہ کاروں! اللہ نے تمہیں رحمت ،مغفرت ،اور نجات کا عشرہ دیا ہے ،اس لئے اس کی بارگاہ بےکس پناہ میں انتہائی عاجزی کے ساتھ اپنے چھوٹے بڑے گناہ معاف کرالو!! ،جب بندہ مومن رب کی بارگاہ میں اپنی جبین نیاز کو خم کردیتا ہے
اور روروکر،گڑگڑا کر،اپنے کئے ہوئے پر انتہائی ندامت کے ساتھ دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کرتا ہے رب کی رحمت کو جوش آتا ہے بڑا پیارا سا جواب رحمت ملتا ہے، اے میرے بندے جا!میں نے تیرے گناہوں اور خطاؤوں کو معاف کردیا۔
شعر
بےسبب بخش دے نہ پوچھ عمل
نام ستار ہے تیرا یارب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تونے میرے ذلیل ہاتھوں میں
دامن مصطفی دیا یارب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث میں اس ماہ کی عظمت
حضرت مالک بن حویرث بیان کرتے ہیں: حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم منبر شریف پر تشریف لے گئے،جب آپ نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا: آمین،پھر دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا:آمین، پھر تیسری سیڑھی پر قدم رکھا توفرمایا:آمین،پھر
(اس کی وضاحت کرتے ہوئے) فرمایا:میرے پاس حضرت جبریل علیہ السلام آئے اور کہنے لگے:اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم!جوشخص رمضان کا مہینہ پالے اور اس کی مغفرت نہ ہو تو اللہ اس کو رسوا کرے،میں نے کہا:آمین،اور جب میں نے دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو حضرت جبریل نے پھر فرمایا:جو اپنے والدین،یاان میں کسی ایک کو پالے اور
(ان کی نافرمانی کرکے )جہنم میں داخل ہو، اللہ اس کو رسوا کرے،میں نے کہا:آمین، اور جب میں نے آخری سیڑھی پہ قدم رکھا ،تو جبریل علیہ السلام نے کہا:اور وہ شخص جس کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کانام لیا گیاہواوروہ آپ پر درود نہ بھیجے تواللہ اس کو رسوا کرے،کہئے آمین!تو میں نے کہا:آمین،
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ میں دیگر امور کے ساتھ رمضان المبارک کی خیرو برکات سے محرومی کو بہت بڑی بد نصیبی قراردیاگیا،قابل غور امر یہ ہے کہ اس انسان سے بڑھ کر بھلا کون شخص بدنصیب ہوگا جس پر تمام فرشتوں کےسردار یعنی سیدالملائکہ بددعا کریں،اور اس پر سیدالانبیاء آمین کہیں جو ساری کائنات کے لئے رحمت بناکربھیجے گئے ہیں۔ایسی دعاؤوں کی قبولیت میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔
لیکن افسوس صدافسوس !کہ آج کا مسلمان فقط نام کا مسلمان ہے،اس پاک مہینہ میں ذرا سا اگر ایک نظر اپنے مسلم محلوں پر ڈالئے ،مسلم نوجوانوں پر ڈالئے،رمضان میں ان کی حرکتوں کو دیکھنے کے بعد، رب کا سچا بندہ کف وافسوس کے بحر عمیق میں ڈوب جاتا ہے،روزہ تو روزہ ہے ،سال بھر فقط ایک بار دستک دینےوالا یہ مہینہ،جس کی ایک ایک گھڑی عظمتوں برکتوں سے پر ہے لوگ اس کا بھی خیال نہیں کرتے،روڈوں پر،ہوٹلوں،میں جس طرح غیر رمضان میں بلاتکلف کھاتے پیتے تھے اس میں بھی ویسے ہی کھلم کھلا کھاتے پیتے ہیں۔کسی کواس ماہ کی نہ کوئی فکرہے اور ناہی کوئی احترام،لوگ پرسنٹیز میں اب روزہ رکھتے ہیں، اکثر تو رکھتے ہی نہیں اور اگر گچھ گنے چنے افراد رکھتے بھی ہیں تو وہ اپنے روزوں کو منہیات شرعیہ سے قدرے حفاظت بھی نہیں کر پاتے،مردتو مرد ہیں خواتین حضرات کا بھی برا حال ہے،آئے دن دین سے ان کی دوری ان کے آخرت کی بربادی کے لئے کافی ہے، اللہ ہمارے دین وایمان کی حفاظت فرمائے، اور آخرت کو برباد ہونے سے بچائے۔آپ کی عدالت میں مودبانہ التماس ہے کہ اے مسلمانوں!گیارہ مہینہ کھانے کے لئے ،کم نہیں ہیں ہمارے پاس، بس فقط ایک ماہ کی بات ہے میرےدینی بھائیو!اس ماہ کو ضائع نہ جانے دو ،اس کااحترام کرو،ایمان واحتساب کے ساتھ روزہ رکھو،نماز اور تراویح کی پابندی کرو، اوراول فول باتوں سے اس کی حفاظت بھی کرو،ہر مومن مسلمان کو چاہئیے کہ اس ماہ مقدس کی آمد پر اپنااپنا محاسبہ کریں، اور اپنے اندر پائی جانےوالی وہ تمام کوتاہیاں،برائیاں سستیاں ،کاہلیاں جو رب کی عبادت وریاضت میں مخل ومانع ثابت ہورہی ہوں ان کو دور کریں، تاکہ بالخصوص اس ماہ مبین میں کثرت کے ساتھ عبادت،تلاوت قرآن،توبہ واستغفار رب کی بارگاہ صمدیت میں کی جا سکے۔اللہ تعالی ہمارے نیک اعمال کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت سے نوازے۔آمین یارب العلمین،بجاہ سیدالمرسلین