ازقلم: فیاض احمدبرکاتی مصباحی
استاذ جامعہ اہلسنت نورالعلوم عتیقیہ
مہراج گنج بازار ترائی ضلع بلرامپور
مدارس اسلامیہ موجودہ وقت میں مساجد کی آبرو ہیں ، اسلامی معاشرے کی زینت ہیں ، دیار غیر میں اسلامی امانت کے دیانت دارو امین ہیں ۔ مدارس اسلامیہ ہوں یا مکاتیب یہ مسلمانوں کے دین ایمان کے تحفظ میں ریڑھ کی ہڈی ہیں ۔ پچھلے سوسال میں ان مدارس نے خاموشی کے ساتھ وہ کارنامہ انجام دیا ہے جو بڑی سے بڑی تنظیم اور بڑے سے بڑا ملک انجام نہ دے سکا ۔ دولت وثروت ، شہرت وعظمت سے ڈنکے بجائے جاتے ہیں جب کہ حالت فقر وفاقہ میں اپنا بھی ایمان بچایا جاتا ہے اور اپنی ذات سے وابستہ سیکڑوں افراد کے ایمان کی سر حد پر جواں مردی کے ساتھ پہرے دئیے جاتے ہیں ۔ مدارس نے فاقہ مست افراد میدان میں اتارے ، دنیا کی بے ثباتی دلوں میں جمائے اور خدائے قہار کے جلال وجبروت کا پرچم اٹھائے ، شیاطین کے نرغوں میں گھس کر ، پیٹ پر پتھر رکھ کر ، زبان درازوں کے طعنے سن کر ، قوم کے احمق اور فرعون صفت افراد کا ظلم سہ کر گاؤں گاؤں ، قصبہ ، قصبہ اور شہر شہر جن لوگوں نے اہل ایمان کے عرفانی قلعے کی نگہبانی کی ہے یا اب تک میدان کار زار میں ڈٹے ہوئے ہیں وہ انہی مدارس اسلامیہ کے جیالے سپوت ہیں ۔
جس وقت دنیا مادہ پرستی کے جال میں گرفتار ہوچکی تھی اور ابھی تک گرفتار ہے ، مادیت کے جس طوفان نے خاندانی روحانی امینوں کے مضبوط ایمانی قلعے کو تاش کے پتوں کی طرح ہوا کی بلکھاتی جالوں میں بکھیر دیاتھا ، ان کی حالت بھی یہ ہوگئی تھی کہ جو جتنا بڑا مالدار ہوگا اتنا بڑا روحانیت کا اور دین وایمان کا ٹھیکیدار ہوگا ۔ جن خاندان کے بزرگوں نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کی تھی اور یہ عزلت نشینی بھی اس لیے تھی کہ اپنا ایمان بچاسکیں آج انہی خاندانوں کے صاحب زادگان دنیاداری بلکہ الحادی فضاء میں لت پت تھے اور آج بھی ہیں ، بڑے بڑے صاحب زادگان کو دیکھ کر ان سے باتیں کرکے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کے برہمن نے صرف اپنا چولہ بدلا ہے روپ رنگ آج بھی وہی ہے ۔
اہل دول کی محفلوں میں دینی باتیں کرنا عیب شمار کیا جانے لگا تھا بلکہ اب بھی کچھ مسلم سوسائٹیز مل جاتی ہیں جہاں اسلام اور قرآن کی بات کرنے پر لڑائیاں ہوجاتی ہیں ۔ مسلمانوں کے گھروں سے اسلام رخصت ہوچکا تھا ، دلوں میں تھوڑی بہت ایمانی رمق باقی رہ گئی تھی یا اب بھی کوئی چراغ ہے جو ٹمٹا رہا ہے تو اس کے پیچھے کسی مدرسے کی ٹھوس بنیاد ہے ۔ اسلام بیزار معاشرہ تشکیل پاچکا تھا اور اب بھی یہ لہر سونامی سی رفتارسے مسلمانوں کے گھروں کے ہر کمرے میں داخلے کی کوشش کررہی ہے ، ان طوفانوں کو ہر موڑ پر جن جاں بازوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے انہیں مدارس کا پروڈکٹ مولوی ، مولانا ، امام ، حافظ ، قاری یا عامل کہتے ہیں ۔
مساجد کے ذمہ داران کا ظلم وستم اور مدارس کے فارغین ۔
بر صغیر ہندوپاک کی مساجد پر اس وقت وہ ظالم طبقہ قابض ہے جسے کبھی بھی اسلام سے کوئی ہمدردی نہیں تھی ، مسلمانوں کے خلاف دل میں پنپ رہی نفرت کو مسلمانوں کے ائمہ مساجد پر ظلم کرکے ظاہر کرنے والے ان صدور وسکریٹریز کی اگر خاندانی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو سب کے پس پردہ کوئی گھناءونی کہانی ہوگی ، مساجد کے صدور اور سیکریٹریز کا دین سے بس اتنا تعلق ہے ہوتا ہے کہ ہفتے میں جمعہ کے دن مسلمانوں کا دیاگیا چندہ گن لیں اور ان چندوں کو کہیں اکٹھا کرلیں ۔ نہ بیٹا دین دار ، نہ بیٹیاں دین سے کوئی مطلب رکھتی ہیں ، نہ بیویاں دیں کو اہمیت دیتی ہیں ۔ خود صدر صاحب کے پتہ نہیں کتنے جائز ناجائز کام ہوتے ہیں جن کی آمدنی پر صدر صاحب اتراتے ہیں ۔ ایسے لوگ جب مسجد میں آئیں تو ائمہ کو گالیاں دیں ، مولویوں کے خلاف بھونکے ، مولوی کو صحیح سے تنخواہ نہ دیں ، رہنے سہنے کا انتظام جانوروں کی طرح ہو ۔ ان سب کے باوجود مدارس کے یہ فارغین جو اپنی ذہانت اور قوت بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے کوئی بھی کام کرسکتے ہیں قوم کے ان پانڈوں کا سارا ظلم اس لیے برداشت کرتے ہیں کہ وہ مسلم معاشرے سے ختم ہوتے اسلام کو دیکھ کر بے چین ہوجاتے ہیں ۔ ظالم صدور وسیکریٹریز کے گھر اور خاندان کے اصلاح کی فکر بھی ان ئمہ کو ہوتی ہے ۔
نوجوانوں کو بے راہ روی سے ان کا باپ نہیں روک پاتا ہے لیکن اپنی حکمت عملی سے یہ خانہ بدوش ائمہ نوجوانوں پر کنٹرول حاصل کرکے انہیں اچھا انسان بنانے کی فکر کرتے ہیں ۔ جن علاقوں میں مساجد میں ائمہ پریشان ہوتے ہیں یا بار بار ائمہ بدلے جاتے ہیں ان علاقوں کی نئی نسل دینی ومذہبی اعتبار سے تباہ ہوتی ہے ۔ امام کا اپنا رعب اور مقام ہوتا ہے ۔ بار بار مولوی بدلنے سے معصوم ذہن پر جو اثرات پڑتے ہیں اس کا صحیح ادراک کسی صدر یا کسی سیکریٹری کے بچے کو دیکھ کر ہوسکتا ہے ۔ اس زمانے میں بھی متوکل ، صابر ، قانع ، ملنسار ، امانت دار اور انسانیت کے علم بردار افراد مدارس اسلامیہ ہی تیار کرکے مسلم سماج میں لاتے ہیں ۔
مکاتیب ومدارس ۔
اس وقت ملک میں جو حال مساجد کا ہے وہی صورت حال مدارس ومکاتیب کا بھی ہوچکا ہے ۔ پہلے مکاتیب ومدراس پر علماء قابض ہواکرتے تھے اور وہ اپنے علم وتجربہ کی بنیاد پر مدارس ومکاتیب کا نظام دیکھتے تھے لیکن سماج میں ان کی عزت وتکریم کی وجہ سے کچھ لچے لفنگے جن کو مفت میں ایسی عزت و شہرت کی تلاش تھی مدارس کھولنے ، یا زبردستی قبضہ کرنے یا کسی گھس پیٹھیے راستے سے مدارس پر قابض ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔ اس وقت پورے ملک میں اسی فیصد مدارس انہیں ظالموں کے ہاتھوں میں ہے ۔ یہ لوگ علماء سے چندہ کراکے یا تو اپنا گھر چلاتے ہیں ، یا اپنے کاروبار میں لگاتے ہیں یا ان پیسوں کے بل بوتے پر مدرسوں میں اپنی ڈکٹیٹر شپ چلاتے ہیں ۔ حقیقی مدارس جن تک مسلمانوں کے زکوہ کی رقم پہونچ رہی ہے وہ در اصل بیس فیصد ہی ہیں ۔ انہی بیس فیصد کے تعلیم یافتہ پورے ملک میں ہزار ظلم سہہ کر بھی دینی کام انجام دے رہے ہیں ۔ باقی یہ اسی فیصد والے کسی کام کے نہیں ہیں ۔ الٹا ان کی وجہ سے مسلم معاشرہ انتشار و افتراق کا شکار ہوتاہے ۔ جن کے پاس خود علم نہ ہو وہ عالم بننے یا بنانے کا انتظام صرف اپنی ظالم کھوپڑی سے کیوں کر کرسکتا ہے ۔ ؟ مدارس میں پڑھانے کے لیے اچھے اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہے ، اچھی کتاب کی ضرورت ہوتی ہے ، اچھے طلبہ بھی چاہیے ۔ اچھے اساتذہ اچھی تنخواہ ، اچھا سلوک ، اچھے رہن سہن کا مطالبہ کرتے ہیں اور یہ جہلا سب کو اپنی طرح سمجھے ہوئے رہتے ہیں اس لیے کوئی اچھا عالم ان کے مدرسوں میں نہیں جاتا ۔ یہ لوگ بلڈنگیں خوب بنائیں گے اور خوبصورت بنائیں گے لیکن اس میں طلبہ کم اور مدرس صرف چندہ کرنے والے ہوتے ہیں ۔ ان جاہلوں کے مدرسوں کی پہچان یہ ہے کہ یہ لوگ کتابیں بالکل رکھ ہی نہیں سکتے ۔ کتابوں سے ان کو دشمنی ہوتی ہے ۔ ان دنیا داروں کے مدارس اکثر ایسے ملیں گے کہ ان کی زمینیں بھی کسی صدر یا سیکریٹری کے نام ہونگی ۔ کہیں کہیں تو اچھی خاصی بلڈنگیں بنواکر صدر یا سیکریٹری نے اس پر قبضہ کرلیا۔ بہر حال زکوہ خوروں کا یہ سب سے خطرناک گروہ ہے جو مدارس کی آڑ میں مدارس کو نقصان پہونچا رہا ہے ، علماء کو بدنام کررہا ہے اور لوگوں کو دین سے دور کررہا ہے ۔
جو مدارس ومکاتیب واقعی دینی خدمات انجام دے رہے ہیں وہ لائق تقلید ہیں ۔ اساتذہ سر پر بٹھانے کے لائق ہیں ۔ اپنے جن علوم وفنون کا استعمال کرکے وہ لاکھوں کما سکتے ہیں انہی علوم فنون کے ذریعے چند روپے لے کر قوم کے بچوں کو سنوارنے میں لگے رہتے ہیں ۔ انہیں اپنی زندگی کی بالکل پرواہ نہیں ہوتی ہے ۔ کچھ علماء تو ایسے ہوتے ہیں جو چوبیس گھنٹے میں صرف ایک وقت کھاتے ہیں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کئی کئی دن میں ایک وقت کھاتے ہیں ۔ قناعت پسندوں ، متوکلوں اور صابروں کی یہ فوج صرف مدارس میں ملیں گی ۔ ہر ظلم وستم یہ کہہ کر سہ جاتے ہیں یہ رسول اللہ کی سنت ہے ۔ ہم دین کے امین ہیں ۔ ہم نے دین پڑھا ہے اسے پھیلانے کے لیے دینی تعلیم کے ذریعہ دنیا کمانے کے لیے نہیں ۔
آج ایک مزدور بھی اٹھارہ ہزار سے تیس ہزار تک کمالیتا ہے لیکن ایک مولوی چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی کرکے بھی چھ ، سات ، دس ہزار بڑی مشکل سے کماتا ہے ۔ اسی پر صابر بھی ہے ۔
جس علاقے میں کوئی عالم نہیں ہیں یا ہیں لیکن اس صلاحیت کے نہیں وہاں کی عوام کا رہن ، سہن ، بول چال ، تہذیب وتمدن ، دینی غیرت وحمیت ، آپسی اتحاد ، دینی جذبے بالکل الگ تھلگ ہونگے ۔جہاں کوئ اچھا عالم ہوگا وہاں کے لوگوں کی تہذیب ، بچوں کا کلچر ، عورتوں میں ایمانی قوت ، جوانوں کا جذبہ جنوں ، بوڑھوں کی پختہ فکر الگ ہوگی ۔ اندازہ کرنے کے لیے بہار ، جھارکھنڈ ، ایم پی ، بنگال اور ا ڑیسہ جیسی ریاست کا رخ کریں ۔
مدارس اسلامیہ خانقاہوں کی اساس ہیں ، مساجد کی آبرو ہیں ، مکاتیب کی زینت ہیں ، مسلم سماج کا وقار ہیں ، اسلامی تہذیب وثقافت کے امین ہیں ،مسلم خواتین کی اسلامی غیرت و حمیت کا مرکز منبع ہیں ۔
ہمیں دو اہم نکتوں پر توجہ دینا ہے ۔ مدارس اسلامیہ کو اندرونی اور باہری سازشوں سے بچالیں تو یہ مدارس ہمیں ہمارا وقار واپس کرسکتے ہیں ۔ اپنے اساتذہ اور علماء کو صرف وہ جائز حق دے دیں جن کے وہ واقعی حق دار ہیں تو ہم باعزت معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔