تعلیم

یہ مدرسہ ہے تیرا میکدہ نہیں ساقی

تحریر: نورالہدی مصباحی گورکھپوری
جرنلسٹ روزنامہ راشٹریہ سہارا گورکھ پور
میڈیا انچارج ٹیچرس ایسوسی ایشن مدارس عربیہ اترپردیش
نزیل حال پونہ مہاراشٹر

دینی مدارس کی تاریخ بہت قدیم ہے ،دینی مدارس عہد نبوی سے لے کر آج تک اپنے مخصوص انداز سے چلتے آ رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مدارس عربیہ میں زیر تعلیم طلباء وطالبات کی تعداد دو فیصد بھی نہیں ہے ،مگر افسوس ہے، ماڈرن لوگوں کی ذہنیت پر،، ان حضرات کی خواہش ہوتی ہے کہ انھیں مدارس سے آئی،اے،ایس، پی،سی،ایس،ڈاکٹر انجینئر سب نکلیں ،،،،،، واضح رہے مدارس کا ایک خاص نصاب ہوتا ہے، جو انتہائی پاکیزہ اور نورانی ماحول میں پڑھا یا جا تا ہے ،جس میں مستند عالم دین کا مقام حاصل کرنے کے لئے عربی و فارسی ، صرف و نحو، قرآن و حدیث ، تفسیر ، فقہ و اصول فقہ، معانی و ادب ، منطق و فلسفہ جیسے ضروری علوم کا ایک مکمل نصا ب پڑھنے کے بعد وہ عالم دین کے منصب پر فائز ہوتا ہے۔انہی دینی مدرسوں کے بارے میں شا عر مشرق ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا کہ: ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو ، غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہی مدارس میں پڑھنے دو ، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہو گا ؟ جو کچھ ہو گا میں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔ اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں سے محروم ہو گئے تو بالکل اسی طرح ہو گا جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے با وجو د آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈ رات اور الحمراء کے نشانات کے سوا اسلام کے پیرؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا ، ہندوستا ن میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانو ں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔
دینی مدارس جہاں اسلام کے قلعے ، ہدایت کے سر چشمے، دین کی پنا ہ گاہ ، اور اشا عت دین کا ذریعہ ہیں ،وہیں یہ دنیا کی سب سے بڑی حقیقی طور پر "این جی اوز "بھی ہیں۔ جو لاکھوں طلبہ و طالبا ت کو بلا معاوضہ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو رہائش و خوراک اور مفت طبی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں۔
ان مدارس نے ہر دور میں تمام ترمصائب و مشکلات ، پابندیوں اور مخالفتوں کے باوجود کسی نہ کسی صورت اور شکل میں اپنا وجود اور مقام برقرار رکھتے ہوئے اسلام اور انسانیت کے تحفظ اور اس کی بقاء میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ضرورت پڑنے پر ماہرین نے مدارس کے نصاب درس و نظام تعلیم میں مفید ترمیم اور حذف واضافہ بھی کیا ہے، جس میں علوم کتاب و سنت کو قائم رکھتے ہوئے تقاضائے وقت کے مناسب بعض ایسے علوم و فنون کا اضافہ کیا ہے۔ جو پہلے نصاب میں شامل نہیں تھے۔
ان سب کے باوجود ایک طبقہ مدارس دینیہ کے رائج نظام تعلیم کو ناقص، غیرمفید اور ان کے فضلاء کو وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر اور سماج کے لئے غیرنفع بخش بتاتا ہے، اور قوت کے ساتھ یہ تحریک چلا رہا ہے کہ مدارس عربیہ عصری تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں ،،، ہمارے مدارس کے انہی ناصحین کی کرم فرمائیوں سے شہ پاکر ، بہت سے لوگ اپنی کرسی پر براجمان ہو کر، سرخروئی حاصل کرنے کے لئے ،کیا سے کیا رہے ہیں ؟؟؟، جس میں پھنس کر قوم وملت کی گاڑھی کمائی سے چلنے والے مدارس اپنی اسلامی روح کو باقی نہیں رکھ پائیں گے۔
یاد رہے ،قدیم وجدید کے اختلاف فکر ونظر کا یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ اس کی کڑیاں بہت پہلے سے چلتی آرہی ہیں ۔۔ہم اربابِ مدارس سے گزارش کرتے ہیں کہ اس ضمن میں، زیادہ متفکر اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ،رزق تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ،ہم نے تو علم دین حاصل کیا ہے دین کی خدمت کرنے کے لئے ،نہ کہ دنیا کمانے کے لئے ،ہم دنیا کے کسی بھی کونے میں ٹوٹی ہوئی چٹائی پر بیٹھ کر ان شاء اللہ دین کی خدمت کر سکتے ہیں ،کوئی بھی چھوٹا یا بڑا بزنس کرکے اپنی ضروریات زندگی کی تکمیل کر سکتے ہیں ۔بس ہماری زندگی میں ہمیشہ دین متین کی خدمت مقصود رہے اور کچھ نہیں۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com