رمضان المبارک کا مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے، خدا کی رحمتوں کا بادل چھایا ہوا ہے، روزہ داروں کے لیے نیکیوں کا موسم ہے، ہر طرف خوشی اور مسرت کا عالم ہے۔ قرآن پاک جو آسمانی کتابوں میں سب سے افضل اور قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے ذریعۂ ہدایت و نجات ہے، اس کتاب لازوال کو رمضان المبارک سے خاص تعلق ہے کہ اس کا نزول لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اسی ماہِ مبارک میں ہوا۔ پھر رمضان کی راتوں میں تراویح جیسی عبادت میں قرآن پاک کا پڑھا جانا قرآن و رمضان کے رشتے کو اور قریب کر دیتا ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو رمضان میں قرآن کی تلاوت کا اہتمام رکھتے ہیں، تراویح میں سناتے یا سنتے ہیں اور ثواب کا بے شمار ذخیرہ کمالیتے ہیں؛ لیکن ساتھ ہی بہت سے پڑھنے والوں اور قرآن کے حافظوں پر افسوس بھی ہوتا ہے کہ جو قرآن تو پڑھتے ہیں لیکن بجائے ثواب کے اپنے گلے میں لعنت کا طوق ڈالتے ہیں، قرآن کو طوطے کی طرح بے احتیاطی میں اس طرح پڑھتے ہیں کہ حرکات و سکنات کیا بلکہ الفاظ و حروف تک کھاجاتے ہیں، یہ قرآن پاک کے ساتھ ناانصافی اور ظلم ہے کہ اس کو حد سے زیادہ جلدی پڑھاجائے اور تجوید کا بالکل خیال نہ کیا جائے۔
یہ بات تو واضح ہے کہ عوام میں اکثر طبقہ قرآن کو بے ڈھنگے طریقے سے پڑھنے والوں کا ہے اور یہ اس لیے ہے کہ ان کو پڑھانے والے خود قرآن پاک کے آدابِ قرأت سے ناواقف ہوتے ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ الم ناک بات یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ میں پڑھانے والے مشاق اساتذہ بھی ایسے حفاظ تیار کرکے بھیجتے ہیں کہ جو قرآن کیا پڑھتے ہیں بلکہ اس کلامِ مقدس کے ساتھ کھلا مذاق کرتے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ بہت سے عاقبت خراب حفاظ جلدی پڑھنے کو فخر سے بیان کرتے ہیں، چنانچہ مجھ سے ایک راجدھانی سے تیز پڑھنے والے حافظ نے پوچھا کہ مولانا آپ کے پڑھنے کی اسپیڈ کیا ہے؟ میں نے کہا کیا مطلب؟ کہنے لگے آپ ایک پارہ کتنی دیر میں پڑھتے ہیں؟ میں نے کہا پچیس سے تیس منٹ میں۔ کہنے لگے پھر تو آپ کو اسپیڈ بنانے میں وقت لگے گا، میں تو بارہ سے تیرہ منٹ میں ایک پارہ نمٹا لیتا ہوں۔ میں نے کہا بہت خوب! پارے کے ساتھ پڑھنے کا ثواب بھی نمٹا لیتے ہوں گے۔
ایک حافظ صاحب تراویح میں پڑھ رہے تھے سنا اور غور کرنا چاہا کہ قرآن میں کس جگہ سے پڑھ رہے ہیں تو معلوم نہیں چل پایا، بس یوں سمجھیے کہ گویا کسی لوہے کے برتن میں کنکری ڈال کر ہلایا جا رہا ہو۔
قرآن پاک جلدی پڑھنے پڑھانے کی وبا زیادہ تر یوپی کے مدارس میں ہے، حالانکہ اس میں کئی نقصانات ہیں غلطیاں درست نہیں ہو پاتیں، الفاظ صحیح ادا نہیں ہوتے، حروف کٹ جاتے ہیں، زبر کی جگہ زیر اور زیر کی جگہ زبر پڑھاجاتا ہے، اس طرح معانی بھی بدل جاتے ہیں اور ثواب کا تو کہیں ذکر ہی نہیں آتا کہ عذاب مول لیا جارہا ہوتا ہے۔
جلدی پڑھنے کی وجہ:
اساتذہ کی بے توجہی سے بڑھ کر اور کیا وجہ ہوسکتی ہے، ایک استاذ پورے سال طلبہ کا آموختہ خود سننے کے بجائے دوسرے طلباء سے سنواتا ہے، جلدی پڑھنے پر روک نہیں لگاتا، غلطیوں کی نشاندہی نہیں کرتا، پارہ خود نہیں سنتا، قواعد کی کتاب نہیں پڑھاتا، تجوید کی رعایت نہیں کراتا یہ سب باتیں ایسی ہیں جو عام طور پر ان مدارس میں دیکھنے کو ملتی ہیں جہاں حفظ کلام پاک کی تعلیم کو کھیل تماشا سمجھا جاتا ہے۔
ورنہ گجرات کے مدارس میں حفظ قرآن کی تعلیم پر جو محنت دیکھنے کو ملتی ہے وہ واقعی قابل تعریف ہے، حفظ کی معیاری تعلیم گجرات کے مدارس میں دی جاتی ہے، یوں تو ہر صوبے میں گنے چنے ایک دو مدرسے ایسے ہوتے ہی ہیں جہاں کا معیار تعلیم اچھا ہوتا ہے، لیکن مجموعی طور پر اکثر مدارس قرآن پاک کی تعلیم ایسی نہیں دے پاتے کہ بچہ اس کے ذریعے اپنی آخرت سنوار سکے اس معاملے میں سب سے بڑا مجرم استاذ ہے جو صرف اپنی سستی کاہلی اور بے توجہی سے بچے کا وقت ضائع کرتا ہے اور قرآن پاک ڈھنگ سے حفظ کرانے کے بجائے جلدی جلدی قرآن مکمل کرانے کے چکر میں رہتا ہے کہ کب بچے کا حفظ مکمل ہو اور کب مجھے ہدایا و تحائف سے نوازا جائے۔ میری نگاہ میں حفظ کا وہی استاذ کامیاب کہلانے کا مستحق ہے جس کے پاس پڑھنے والا ہر طالب علم قواعد و تجوید کے ساتھ سبق اور آموختہ سناتا ہو اور حفظ مکمل کرتے ہی تراویح میں سناسکتا ہو۔
اساتذہ کے لیے چند باتیں جن پر عمل کرکے حفظ کی درسگاہ کو مثالی بنایا جا سکتا ہے:
❶ اپنی درسگاہ میں پندرہ طلباء سے زائد نہ لیں اگر مہتمم اصرار کرے تو اسے اپنا معیار تعلیم سمجھادیں۔
❷ ہر طالب علم کو ابتدا میں مخارج کے ساتھ نورانی قاعدہ پڑھائیں اور تجوید کے تمام قواعد یاد کرائیں اور ان ہی کے مطابق سمجھاکر پڑھائیں۔
❸ قرآن پاک میں قواعد کا اجرا کرائیں جب تک کہ بچہ کو غنہ، اخفا، اظہار، ادغام وغیرہ ضروری باتوں کی پہچان نہ ہو اجرا کراتے رہیں۔
❹ بچہ جو سبق کل سنائے گا اسے آج ہی اس سبق کی مشق کرادیں۔
❺ سبق، سبق کا پارہ اور آموختہ ایک ہی انداز اور ایک ہی نہج پر سنیں، ایسا نہ ہو کہ سبق تجوید سے اور پارہ راجدھانی کی اسپیڈ سے۔
❻ ہر بچہ کا سبق اور آموختہ خود سنیں کسی دوسرے طالب علم کو سننے کے لیے نہ دیں، ہاں شام کے آموختہ میں وقت کی قلت کی بنا پر ایسا کیا جا سکتا ہے؛ لیکن اپنے سامنے ہی بٹھاکر سنوائیں اور اپنے کانوں کو ہر سنانے والے کی طرف متوجہ رکھیں۔
❼ ہر غلطی پر کچی پنسل سے نشان لگادیں۔
❽ بچے کو جلدی حافظ بنانے کے بجائے ڈھنگ کا حافظ بنانے کی کوشش کریں خواہ ایک سال زائد کیوں نہ لگے۔
❾ آموختہ ایک پارہ سے کم نہ سنیں۔
10: روزانہ یا ہفتے میں تین دن تمام طلبہ کو ایک ساتھ بٹھاکر بیس پچیس منٹ قرأت کی مشق کرائیں۔
آخر میں تمام مہتمم و نظمائے مدارس سے درخواست ہے کہ صحیح طور پر حفظ پڑھانا نہایت محنت، شوق ذوق اور وقت طلب کام ہے اس لیے اپنے مدرسے میں حفظ کے اساتذہ کی تنخواہيں معقول رکھیں تاکہ وہ دلچسپی کے ساتھ اپنا فریضہ انجام دے سکیں۔