ازقلم : محمد معین الدین قادری
رب العزت کا بے پناہ فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمیں رمضان المبارک جیسا بابرکت اور باعظمت مہینہ عطا فرمایا اور پھر اس ماہ میں نیکیاں بڑھا دیں بندہ نفل پڑھتا ہے فرض کا ثواب پاتا ہے فرض پڑھتا ستر گناہ زیادہ ثواب پاتا ہے اور ہم مسلمانوں پر اس ماہ کے روزے فرض کئے تاکہ ہم اس بابرکت و با عظمت شہر میں عباتیں کرکے اللہ کو راضی کرلیں اور توبہ و استغفار کرکے اپنی مغفرت کرا سکیں
اس ماہ کے متعلق رب العزت ارشاد فرماتا ہے "فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ” (سورہ بقرہ) جب تم اس (رمضان) مہینے کو پالو تو ضرور روزہ رکھو
حدیث شریف میں آتا ہے کہ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِ يْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَ لَه. مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِه.(الحدیث صحیح بخاری)
یعنی جس نے خالص اللہ و رسول کی رضا کے لئے روزہ رکھا تو اس کے تمام گناہ بخش دئیے گئے
مگر بہت افسوس ہوتا ہے کہ ایک مسلمان ماہ رمضان جیسا مہینہ پاکر اپنی مغفرت نہ کرا سکے نہ جانے کیا ہوگیا ہے مسلمانوں کو کس خواب غفلت میں سو ہوئے کہ ایسا عظمت و رفعت والا مہینہ پایا ہے کہ جس بارے میں حدیث شریف میں آتا ہے کہ "اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ کَجُنَّةِ أَحَدِکُمْ مِنَ الْقِتَالِ”
ترجمہ:روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے جیسے تم میں سے کسی شخص کے پاس لڑائی کی ڈھال ہو.
لہذا لوگوں کو چاہیے جب یہ مبارک ماہ میسر آئے تو لھو و لعب ، فسق و فجور سے اجتناب کریں ہمہ وقت اللہ کی عبادت میں لگے رہیں اور "رضی اللہ عنہم و رضو عنہ” کا مصداق بنیں
مگر آج ہمیں اس بات سے صد افسوس ہے کہ ہم اس ماہ مبارک کی قدر کرنے کے بجائے اور اللہ کی تسبیح و تہلیل و قرآن کریم کی تلاوت کے بجائے گناہ میں ملوث رہتے ہیں خدارا اے قوم مسلم اپنی حقیقت کو سمجھو اور اپنے دنیا میں آنے کے مقصد کو پہچانو جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے
تم لوگوں کو اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو
مگر جب ہم اپنے سماج و معاشرہ کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اتنی برائیوں نے جنم لے لیا ہے جو بیاں نہیں کیا جاسکتا آج ہمارے قوم کے کچھ ایسے نوجوان ہیں، جو اپنے چہرے پر نور کو سجا لیتے ہیں مگر اس نور کی حقیقت سے کوسوں دور ہیں ہمیں اس بات کو بیان کرنے میں شرم آتی ہے کہ کچھ لوگ چہرے پر نور سجا کر مسجدوں کو آباد کرنے کے بجائے چائے کے ہوٹلوں کو آباد کر رہے ہیں اوراگر کوئی ان کی اصلاح کرتا ہے تو وہ اس کے مخالف ہوجاتے ہیں اور پھر اصلاح کرنے والے پر طعنہ زنی اور بد سلوکی سے پیش آتے ہیں- جاننا چاہئے رب العزت کا کھلا اعلان ہے "یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ” (سورہ نور)
ترجمہ: جس دن ان پر گواہی دیں گے، ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں جو کچھ کرتے تھے(کنز الایمان)
ابھی ہمارے اعضاء ہمارے اختیار میں ہے مگر یاد رکھو روز محشر یہی اعضاء ہمارے عیبوں کو بیان کرینگے اور ہم بے بس رہینگے،ارشاد باری تعالیٰ ہے”فَمَا لَه مِنْ قُوَّةٍ وَّ لَا نَاصِرٍ” (سورہ طارق)
اگر کسی صاحب سے کہا جائے کہ روزہ کیوں نہیں رکھتے تو وہ فوراً جواب دیتے ہیں کہ ہماری طبیعت علیل ہے اور ہم روزہ رکھنے کے قابل نہیں ہیں
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے- اور ہم جب اپنے جسم کی زکوٰۃ وقت پر ادا نہیں کرینگے تو ہمیں اس کا اجر ملے گا اور طرح طرح کے امراض میں مبتلا ہونگے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے "وَ مَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِير ( سورۃ البقرہ)
ترجمہ:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور بہت کچھ تو معاف فرمادیتا ہے(کنز الایمان)
لہذا قرآن کی آیت کریمہ سے واضح طور پر ثابت ہو گیا کہ ہم اگر پریشانیوں میں مبتلا ہیں تو اپنے بد افعالی اور بد اخلاقی و بد اقوالی کے بنا پر
لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان تمام برائیوں سے اجتناب کرے اور ہمیشہ اللہ ربّ العزت کی تسبیح و تہلیل بیان کریں اور اسکا شکر بجا لائیں
اسی میں ہمارے لیے کامیابی و کامرانی ہے
اللہ فرماتا ہے،
اِنَّ اللّـٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا ( سورۃ النساء)
ترجمہ: بے شک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے(کنز الایمان)
دعا ہے کہ مولی تعالیٰ ہمیں ماہ مبارک کی برکتوں سے مالا مال فرمائے اور اعمال صالحہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور رمضان المبارک کے روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے
میری ہمت کو سرا ہو میرے ساتھ چلو
میں نے ایک دیپ جلایا ہے اندھیروں کے خلاف