ازقلم: محمد نعمت اللہ قادری مصباحی
اللہ رب العزت نے انسانوں کی ھدایت اور رہنمائی کے لیے انبیاء علیھم السلام کو مبعوث فرمایا، سب سے آخر میں ہم سب کے پیارے نبی جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو اس خاکدان گیتی پر بھیجا اور آپ پر سلسلہ نبوت کو ختم فرمادیا، قرآن مجید و فرقان حمید میں ہے:مَاکَانَ مُحَمّد اَبا اَحَدٍ مِّنْ الرِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ الرسُولُ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّینَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَْئی عَلِیْماً
لہٰذا اب کوئی نیا نبی نہیں آسکتا، البتہ علماء کو انبیاء کا وارث بنایا : حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: الْعُلَمَاء ُ وَرِثَۃُ الْانْبِیَاء ِ ۔
لہٰذا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بعد صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، آئمہ مجتھدین، اولیائے کاملین آتے رہے اور خلق خدا کی ھدایت ورہنمائی کا فریضہ انجام دیتے رہے، انہیں میں سے ایک حضرت محی الدین ابو العباس سید احمد کبیر رفاعی حسینی شافعی علیہ الرحمۃ والرضوان بھی ہیں ۔
آپ 1 رجب المرجب 512ھ بمطابق یکم نومبر 1118ء کو عراق کے شہر بطائح کے قریب بمقام ام عبیدہ قصبہ حسن میں پیدا ہوئے ۔
آپ کا نام احمد بن علی بن یحیٰ بن حازم بن علی بن رفاعہ ہے ،جد امجد رفاعہ کی نسبت سے رفاعی کہلائے ۔ آپ سید الشھداء امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی اولاد میں سے ہیں، آپ کی کنیت ابو العباس اور لقب محی الدین ہے اور مسلکا شافعی ہیں ۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے صرف سات سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرلیا تھا جبکہ صرف بیس سال کی عمر میں تفسیر ،حدیث، فقہ، معانی، منطق، فلسفہ اور تمام مروجہ علوم ظاہری کی تکمیل کرلی، علوم باطنی اپنے ماموں جان شیخ منصور بطائحی رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے حاصل کی ،انتہائی قلیل عرصے میں آپ نے علوم ظاہر وباطنی میں حد درجہ کمال حاصل کرلیا تھا ۔
عبادات :آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ روزانہ 400 رکعات نوافل پڑھا کرتے جن میں ایک ہزار مرتبہ سورہ اخلاص پڑھتے، نیز روزانہ دو ہزار مرتبہ استغفار بھی کرتے۔
امام احمد رفاعی اولیاء اللہ کی نظروں میں
(۱)کسی نے حضور غوثِ اعظم شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں امام رفاعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ تعالی علیہ کے متعلق پوچھا تو ارشاد فرمایا : ان کا اَخلاق سرتاپا شریعت اورقرآن و سُنَّت کے عین مطابق ہیاور ان کا دل اللہ ربُّ العزت کے ساتھ مشغول ہے ۔انہوں نے سب کچھ چھوڑ کر سب کچھ پالیا (یعنی رضائے الٰہی کی خاطر کائنات کوچھوڑا تو رَبّ کو پالیا اورجب رَبّ مل گیا تو سب کچھ مل گیا)۔
(۲)ولی کبیر حضرت سَیِّدُنا ابراہیم ہَوازِنی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْغَنِی فرماتے ہیں : میں سَیِّد احمد کبیر رفاعی کی کیا تعریف کرسکتا ہوں۔ ان کے جسم کا ہر بال ایک آنکھ بن چکا ہے جس کے ذریعہ وہ دائیں بائیں، مشرق ومغرب ہر سمت میں دیکھتے ہیں ۔
(۳)اعلیٰ حضرت ،امام اہل سنت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:آپ کا شمار اَقطابِ اربعہ سے ہے یعنی ان چہار میں جو تمام اَقْطاب میں اعلی وممتاز گنے جاتے ہیں۔ اول حضور پرنور سیدنا غوث اعظم، دوم سید احمد رفاعی، سوم حضرت سید احمد کبیر بدوی، چہارم حضرت سیدابراہیم دسوقی ۔رضی اللہ عنھم اجمعین
قوال:
اللہ عزوجل سے وہی اُنسیت رکھ سکتاہے جو کامل درجہ کی طہارت رکھتاہو ۔
جو اللہ عزوجل پر توکل کرتاہے اللہ عزوجل اس کے دل میں حکمت داخل فرماتاہیاورہر مشکل گھڑی میں اسے کافی ہوجاتاہے۔
جو اپنے اوپر غیر ضروری باتوں کو لازم کرتاہے وہ ضروری باتوں کو بھی ضائع کردیتا ہے۔
وصال:
۶۶؍سال اس دارِ فانی میں رہ کر مخلوقِ خدا کی ہدایت رہنمائی کا کام سرانجام دینے کے بعد بروزجمعرات جمادی الاولی ھ بمطابق 13ستمبر 1182ء بوقتِ ظہر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس عالمِ فنا سے عالمِ بقا کا سفر اختیار کیا،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی زبانِ مبارک سے ادا ہونے والے آخری کلمات یہ تھے :
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللہِ
جنوبی عراق میں آپ کا مزارمبارک آج بھی بے شمار عقیدت مندوں کی اُمیدوں کا مرکز بنا ہواہے۔