سیدنا احمد کبیر رفاعی

مختصر سوانح حیات امام رفاعی

تحریر: محمد یوسف رضا امجدی رضوی
نائب مدیر:فیضان دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ

نام و لقب:السید السند، قطبِ اوحد، امام الاولیاء ، سلطان الرجال، شیخ المسلمین، شیخ ِ کبیر، محی الدین، سلطان العارفین، عارف باللّٰہ، بحر شریعت و طریقت ابوالعباس احمد الرفاعی۔ اباً حسینی، اُماًّ اَنصاری، مذہباً شافعی، بلداً واسطی، بانیِ سلسلہ رفاعی۔
ولادت:امام احمد رفاعی بروز جمعرات، ماہِ رجب کے (1/رجب) کو 512ھ میں مسترشد باللہ عباسی کے زمانہ خلافت میں مقام اُم عبیدہ کے حسن نامی ایک قصبہ میں پیدا ہوئے۔ (شان رفاعی)

٭اُم عبیدہ علاقہ بطائح میں واسط وبصرہ کے درمیان واقع ہے۔
سیرت و کردار:سیرت و کردار میں آپ اپنے جد امجد سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کامل نمونہ تھے۔ سنت و شریعت کی اسی پیروی نے آپ کو اپنے زمانے ہی میں شہرت و عظمت کی اعلیٰ بلندیوں پر فائز کر دیا تھا۔ آپ فرماتے ہیں:
طریقی دین بلا بدعۃ، وھمۃ بلا کسل، وعمل بلا ریاء، وقلب بلا شغل، ونفس بلا شہوۃ
ترجمہ:یعنی میرا طریقہ یہ ہے کہ دین میں بدعت کی آمیزش نہ ہو۔ ہمت سستی پر غالب ہو۔ عمل ریا سے پاک ہو۔ (یادِ محبوب میں محویت کے باعث) قلب دیگر مشغولیات سے آزاد ہو۔
اور نفس شہوت کے بکھیڑوں سے دور ہو۔خدمت خلق کا عنصر آپ کی حیاتِ طیبہ میں بہت غالب نظر آتا ہے۔
اگر کسی بیمار کا سن لیتے تو وہ خواہ کتنی ہی دور کیوں نہ سکونت پذیر ہو، اس کی عیادت کے لیے ضرور جاتے تھے۔ اور (بعدِ مسافت کے باعث) ایک دو دن کے بعد اُدھر سے لوٹتے تھے۔ نیز عالم یہ تھا کہ راستے میں جا کر اندھوں کی آمد کا اِنتظار کرتے کہ ان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں منزل تک پہنچائیں۔ اور جب بھی کوئی بزرگ دیکھتے، انھیں علاقے تک پہنچا آتے۔
شیخ اجل کے لیے رسول اللہﷺکا ہاتھ نمودار ہو:
علامہ شہاب الدین خفاجی مصری نسیم الریاض شفاء قاضی عیاض میں فرماتے ہیں :
کان الشیخ احمد بن الرفاعی کل عام یرسل مع الحجاج السلام علی النبی صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم فلما زارہ وقف تجاہ مرقدہ وانشد:
فی حالۃ البعد روحی کنت ارسلھا
تقبل الارض عنی وھی نائبتی
وھذہ دولۃ الاشباح قد حضرت
فامدد یمینک کی تحظی بھا شفتی
فقیل ان الید الشریفۃ بدت لہ فقبلھا فھنیئا لہ ثم ھنیئا ۔
ترجمہ:یعنی امام اجل قطب اکمل حضرت سید احمد رفاعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر سال حاجیوں کے ہاتھ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر سلام عرض کربھیجتے ،جب خود حاضر آئے مزار اقدس کے سامنے کھڑے ہوئے اور عرض کی:
’’میں جب دور تھا تو اپنی روح بھیج دیتا کہ میری طر ف سے زمین کو بوسہ دے تو وہ میری نائب تھی، اور اب باری بدن کی ہے۔ کہ جسم خود حاضر ہے دست مبارک عطا ہو کہ میرے لب اس سے بہرہ پائیں‘‘
بیان کیا گیا کہ دست اقدس ان کے لئے ظاہر ہوا انھوں نے بوسہ دیا تو بہت بہت مبارک ہو ان کو۔ (فتاویٰ رضویہ شریف)
(بحوالہ:نسیم الریاض شرح الشفاء فصل ومن اعظامہ واکبارہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دارالفکر بیروت )
وصال: ۶۶ی؍سال کی عمر پا کر جمعرات 22/جمادی الاولی 578ھ کو شریعت و طریقت کا یہ آفتاب عالم تاب ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ آپ اپنے دادا شیخ یحییٰ بخاری کے گنبد تلے عراق کے مقام اُم عبیدہ میں مدفون ہوئے، جو زیارت گاہِ ہر خاص و عام ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے