از: محمدقمرانجم قادری فیضی
سب ایڈیٹر: ہماری آواز
حضرت محی الدین سید ابوالعباس احمدکبیر رفاعی حسینی شافعی کا نام احمدبن علی بن یحیٰ بن حازم بن علی بن رَفاعہ ہے۔جَدِّامجد رفاعہ کی مناسبت سیرفاعی کہلائے۔ آپ سیدالشہدا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی اولاد میں سے ہیں،آپ کی کُنیت ابو العباس اورلقب مُحْیُ الدین ہے جبکہ مسلک کے اعتبار سے شافعی ہیں ۔
حضرت سَید احمدکبیر رَفاعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ولادت 1 رجبُ المرجب 512 ھ بمقام اُم عبیدہ قصبہ حسن میں ہوئی۔اس علاقے کو 83ھ میں حجاج ثقفی نے آبادکیاتھا جو بصرہ علاقے میں ہے۔آپ نسبًاحسنی حسینی موسوی کاظمی رفاعی سید ہیں،آپ کی شخصیت ہمہ جہت شخصیت تھی،آپ سلسلہ رفاعیہ کے بانی اور پیشوا ہیں، آپ انتہائی اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔امیر وغریب،ادنیٰ واعلیٰ،ذات پات اور چھوٹوں بڑوں سب سے آپ بہت محبت کیا کرتے تھے اور ان کے ساتھ یکساں سلوک کیا کرتے تھے۔اکثرآپ مجذوبوں، اپاہجوں، نابیناؤں اور کوڑھیوں کے پاس جاتے، انھیں نہلاتے، ان کے کپڑے دھوتے،سر اور داڑھیوں میں کنگھی کرتے،ان کے لئے کھانالے جاتے اور خود ساتھ تناول فرماتے،ان سے دعاؤں کی گزارش کرتے اور فرماتے ایسے لوگوں کی زیارت مستحب بلکہ واجب ہے۔
شیخ سیداحمدکبیر رفاعی رحمۃ اللہ علیہ ابھی سات سال ہی کے تھے کہ والد ماجدسید علی ہاشمی مکی علیہ الرحمہ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ اس کے بعد آپ کی نشو ونما اور پرورش شیخ سیدمنصور بطائحی قدس سرہ کی زیرنگرانی ہوئی، جو آپ کے حقیقی ماموں تھے۔
لقبالسید السند، قطبِ اوحد، امام الاولیاء ، سلطان الرجال، شیخ المسلمین، شیخ ِ کبیر، محی الدین، سلطان العارفین،عارف باللہ، بحرشریعت وطریقت ابوالعباس احمد الرفاعی۔اباً حسینی، اُماًّ حسنی، مذہبا ً شافعی، بلدا واسطی
نسب نامہ: حضرت سید احمد کبیر رفاعی ،بن سید علی، بن سید حسن رفاعی مکی الاشبیلی،بن سید احمد اکبر صالح ،بن سید موسی ثانی ،بن سید ابراھیم مرتضی، بن امام موسی کاظم، بن امام جعفر صادق ، بن امام محمد باقر ،بن امام زین العابدین، بن امام حسین ،بن امیرالمؤمنین سیدنا علی کرم اللہ وجھہ و رضی اللہ عنھم اجمعین۔
اولادوامجاد: حضرت سلطان العارفین سید الاولیاء سیدنا امام احمد کبیر رفاعی رحمۃاللہ علیہ کے بارہ صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں تھی جس کے بارے میں صاحب تریاق المحبین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں : سلطان العارفین سیدی الامام الشیخ سید احمد کبیر معشوق اللہ الرفاعی قدس اللہ سرہ کثیر التزوج والاولادکان لہ اثنی عشرابنا وبنتان
سلطان العارفین سیدی امام شیخ احمدکبیر رفاعی معشوق اللہ رحمۃاللہ علیہ کثیر الاعیال تھےآپ کے بارہ بیٹے اور دو بیٹیاں تھی جن کے نام اس طرح ہیں(۱)سید صالح رفاعی (۲)سید ابراہیم رفاعی (۳)سید محمدمعدن اسراراللہ رفاعی (۴)سید علی سکران رفاعی (۵)سید عبداللہ رفاعی (۶)سید موسیٰ رفاعی (۷)سید محمود رفاعی (۸)سید اسماعیل رفاعی (۹)سید عبد الفتح رفاعی (۱۰)سید عبد المحسن رفاعی (۱۱)سید یوسف رفاعی (۱۲)سید اسحاق رفاعی علیہم الرحمن
تعلیم: آپ کی تعلیم کے بارے میں پاکستان کے مشہور ومعروف قلم کار ڈاکٹرممتاز احمد سدیدی لکھتے ہیں: ابتدائی تعلیم حاصل کرلینے کے بعدشیخ عبدالسمیع حربونی کی نگرانی میں پہنچے اوراُن کی شاگردی میں قرآن کریم کا حفظ مکمل کیا، اور مزید تعلیم وتربیت کے لیے شیخ ابوالفضل علی واسطی قدس سرہ کے سپرد ہوئے، جہاں آپ نے علوم عقلیہ ونقلیہ نیز حدیث، تفسیر،منطق وفلسفہ نیز مروجہ علوم وغیرہ میں بطورخاص کمال ومہارت حاصل کی اور مختلف علمی فضل وکمال کے گوہرمراد سے اپنے دامن آرزو کو پُرکی، نیز فقہ کے غوامض ودقائق کی تحصیل اپنے ماموں شیخ منصور بطائحی کے ہاتھوں مکمل کر کے اُن سے اجازت وصول کی۔ جس وقت آپ کے ماموں شیخ منصور کو اپنی زندگی کا چراغ گل ہونے کا اندازہ ہوا توانھوں نے آپ کو بلوا کرشیخ الشیوخ کی اَمانت اور اپنے خاص وظائف کی ذمہ داری نبھانے کاعہد لیا، اور آپ کو مسندسجادگی اورمنصب ارشاد پر فائز فرمادیا۔ شیخ احمد رفاعی نے اس قدر تحصیل علم کیا کہ آپ بیک وقت عالم وفقیہ بھی تھے، قاری ومجود بھی، مفسرو محدث بھی تھے اور دین کی اعلیٰ قدروں کی نشرواشاعت کرنے والے عظیم مجاہد بھی۔ فقہ میں آپ امام شافعی کے مذہب کے مقلدتھے۔
سیرت وکردار: سیرت و کردارمیں آپ اپنے جدامجد حضورسرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کامل نمونہ تھے۔ سنت وشریعت کی اسی پیروی نے آپ کو اپنے زمانے ہی میں شہرت وعظمت کی اعلیٰ بلندیوں پر فائز کر دیا تھا۔ مؤرخین نے آپ کی شخصیت پر بہت کچھ لکھا ہے۔ اور اَرباب فکروقلم نے آپ کے فضائل ومناقب میں قلم توڑ توڑ دئے ہیں۔آپ رمزتصوف اور رازِ طریقت آشکار کرتے ہوئے کبھی کبھار فرمایا کرتے تھے:’’ما رایت أقرب ولا أسہل طریقاً إلی اللّٰہ من الذل والافتقار والانکسار بتعظیم أمر اللّٰہ والشفقۃ علی خلق اللّٰہ والاقتداء بسنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم ‘‘
یعنی میں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ تک پہنچنے کا اِس سے زیادہ سہل اور قریب ترین کوئی راستہ نہیں دیکھا کہ رضاے الٰہی کی خاطر تواضع وانکسار اِختیار کی جائے، خلق خدا کے ساتھ لطف ونرمی سے پیش آیاجائے، اورسرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت کی پیروی میں زندگی کا سفرطے کیا جائے۔ خدمت خلق کا عنصر آپ کی حیاتِ طیبہ میں بہت غالب نظر آتا ہے۔ اگر کسی شخص کو بیمار سن لیتے تو وہ خواہ کتنی ہی دور کیوں نہ سکونت پذیر ہو، اس کی عیادت کے لیے ضرور جاتے تھے۔ اور بعدِ مسافت کے باعث ایک دو دن کے بعد اُدھر سے لوٹتے تھے۔ نیز ع
الم یہ تھا
کہ راستے میں جا کر اندھوں کی آمد کا اِنتظار کرتے کہ ان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں منزل تک پہنچائیں۔ اور جب بھی کوئی بزرگ دیکھتے، انھیں علاقے تک پہنچا آتے، اور اہل علاقہ کو نصیحت فرماتے کہ لوگو! میرے حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمانِ عظمت نشان ہے :
من أکرم ذا شیبۃ مسلماً سخر اللّٰہ لہ من یکرمہ عند شیبتہ۔
یعنی جس نے کسی بوڑھے مسلمان کی خدمت وتکریم کی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کے اپنے بڑھاپے میں کسی کو اُس کا سہارا اور خدمتی بنا دے گا۔ ایک مرتبہ اپنے سلسلے کا نشانِ امتیاز بیان کرتے ہوئے فرمایا:طریقنا طریق نقی وإخلاص فمن أدخل فی عملہ الریاء والفجور فقد بعد عنا وخرج منا۔
یعنی ہمارا طریقہ مبنی بر اِخلاص، اور بالکل صاف و شفاف ہے، لہٰذا یاد رہے کہ جس کے عمل سے ریاونمود اورفسق وفجورکی بوآنے لگے، پھر اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے، اوراس کا قدم ہمارے دائرہ طریق سے باہر نکل چکا ہے۔
طریقی دین بلا بدعۃ، وھمۃ بلا کسل، وعمل بلا ریائی، وقلب بلا شغل، ونفس بلا شہوۃ
یعنی میرا طریقہ یہ ہے کہ دین میں بدعت کی آمیزش نہ ہو۔ ہمت سستی پر غالب ہو۔ عمل ریا سے پاک ہو۔ یادِ محبوب میں محویت کے باعث قلب دیگر مشغولیات سے آزاد ہو۔اور نفس شہوت کے بکھیڑوں سے دور ہو۔
آپ کی سخاوت: حضرت شیخ عبدا لصمد حَربونی جو کہ َرواق (شہر) میں اوقافِ احمدی کے ذمہ دار تھے وہ فرماتے ہیں کہ 567ھ میں حضرت (سیّدنا) امام احمد رفاعی کے کھیت اور آپ کے رواق میں موجود اوقاف سے سات لاکھ دیوانی چاندی کے درہم اور بیس ہزار سونے کے ٹکڑے حاصل ہوئے اور اسی سال آپ کے لئے مختلف شہروں سے اَسّی ہزار چادریں ، پچاس ہزار تمشکۃ (رومال وغیرہ) بیس ہزار عجمی اونی کمبل، بتیس ہزار کاٹن کے عمامے اور گیارہ ہزار سونے کے دوافقی ٹکڑے آئے اور سات لاکھ ہندی چادریں آئیں اور اسی دن آپ نے رواق کی نہر کے کنارے اپنے کپڑوں کو دھویا اور اپنی ستر پوشی اپنے رومال سے فرمائی اور رواق میں آپ کی الماری میں ایک بھی درہم نہ تھا جو کچھ آپ کو حاصل ہوا تھا وہ سب آپ نے کمزوروں، فقیروں پر صدقہ کر دیا، یا مستحقین، سائلین اور فقرا و مساکین کو دیدیا۔ (سیرت سلطان الاولیاء )
روضۂ سرکار پرحاضری: حضرت شیخ سید احمدکبیر رفاعی رحمتہ اللہ تعالی علیہ 555 سن ھجری میں حضور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ اقدس کی حاضری کے لیئے تشریف لے گئے تو گنبد خضری کے قریب پہنچ کر آپ نے بلند آواز سے عرض کیا : السلام علیک یاجدی!
فوراً روضہ اقدس سے آواز آئی: وعلیک السلام یا ولدی
یہ آواز سن کر آپ وجد میں آگئے تمام حاضرین نے اس سلام کے جواب کو سنا۔آپ نے روتے ہوئے یہ دو شعر بارگاہ رسالت میں پڑھ کر عرض کئے:
فی حالتہ العبد روحی کنت ارسلھا
قبل الارض علی وھی نائبتی
وھذہ دولتہ الاشباح قد حضرت
فامدد یمینک کی تخطی بھا شفتی
ترجمہ:جدائی (دوری)کی حالت میں تو میں اپنی روح کو روضہ مطہرہ پر بھیجتاتھا تاکہ میری طرف سے آپ کی آستانہ بوسی کا شرف حاصل کرے اور جب یہ دولت دیدار مجھے اصالتہ حاصل ہے تو اپنا ہاتھ مبارک دیجیئے تاکہ میں اسے بوسہ دے کر عزت حاصل کروں،اسی وقت مزار اقدس سے ہاتھ مبارک باہر تشریف لایا اور آپ نے اس کو بوسہ دیا۔
اس وقت روضہ مبارک پر تقریباً نوے ہزار عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حاضر تھے. جنہوں نے اس واقعہ کو دیکھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک کی زیارت کی. اس وقت حضور غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ تعالی علیہ اور حضرت شیخ عدی مسافر الاموی رحمتہ اللہ تعالی علیہ اور حضرت شیخ عبدالرزاق حسینی واسطی رحمتہ اللہ تعالی علیہ جیسے جلیل القدر لوگ موجود تھے۔
حاضر وناظر و نور و بشر وغیب کو چھوڑ
شکر کر وہ تیرے عیبوں کو چھپائے ہوئے ہیں
(بنیان المشید)
تصنیف و تالیف: شیخ سیداحمد رفاعی نے توحیدوتصوف اوراخلاقِ حمیدہ پر مشتمل بہت سی مفیدو گراں قدر کتابیں اپنے پیچھے چھوڑی ہیں۔ حاجی خلیفہ نے اپنی کتاب کشف الظنون میں بعض کتابوں کا ذکر کیا ہے، جب کہ کچھ کا ذکر سید محمد ابوالہدیٰ الصیادی الرفاعی کی تصنیف میں ملتا ہے۔ ہمارے علم کے مطابق شیخ الرفاعی کی تصانیف حسب ذیل ہیں : البرہان المؤید، الحکم الرفاعیۃ، الأحزاب الرفاعیۃ، النظام الخاص لأھل الاختصاص، الصراط المستقیم فی تفسیر معانی بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم، الرؤیۃ، الطریق إلی اللہ العقائد الرفاعیۃ، المجالس الأحمدیۃ، تفسیر سورۃ القدر، حالۃ أھل الحقیقۃ مع اللّٰہ، الأربعین، شرح التنبیہ، رحیق الکوثر، البہجۃ فی الفقہ۔ اس میں کچھ تومطبوعہ ہیں، بعض تاہنوز مخطوطہ ہیں، اور بیشتر فتنہ تاتار یہ کی نذر ہو گئیں۔
ملفوظات عالیہ: سیدالاولیاء حضرت شیخ کبیرسید احمدکبیر رفاعی علیہ الرحمۃ اپنے زمانے کے شیخ الوقت اور امام الاولیاء تھے۔ بڑے عابد و زاہد، عالم فاضل اور صاحبِ کشف و کرامت تھے۔ آپ اپنے مُریدین و مُحبّین کی حُسنِ تربیت کے لئے وقتاً فوقتا ًشریعت و طریقت کے بہترین رہنما اصول بھی بیان کرتے رہے ۔آپ کے چند ملفوظات مُلاحظہ کیجئے۔
جو اپنے اوپر غیر ضروری باتوں کو لازم کرتاہے وہ ضروری باتوں کو بھی ضائع کردیتا ہے ۔مخلوق کو اپنے ترازو میں مت تولو بلکہ اپنے آپ کو مومنین کے ترازو میں تولو تاکہ تم ان کی فضیلت اور اپنی مُحتاجی جان سکو ۔جوشخص یہ خیال کرے کہ اس کے اعمال اسے رَبِِّ قدیر عزو جل تک پہنچادیں گیتو اس نے اپنا راستہ کھو دیا،اپنے اعمال کے بجائے رحمتِ الہٰی پر نظر کرے۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ غوث و قطب کو غیبوں پر مُطَّلَع فرمادیتاہے پس جو بھی درخت اگتاہے اور پتَّہ سر سبز وشاداب ہوتاہے تو وہ سب جان لیتے ہیں۔ جو اللہ عزوجل پر توکل کرتاہے اللہ عز وجل اس کے دل میں حکمت داخل فرماتاہے اورہر مشکل گھڑی میں اسے کافی ہوجاتاہے۔ افسوس ہے ایسے شخص پر جو دنیا مل جانے پر اس میں مشغول ہوجاتاہے اور چھن جانے پرحسرت کرتاہے ۔اللہ عزوجل سے محبت کی علامت یہ ہے کہ اولیاء اللہ کے علاوہ تمام مخلوق سے وحشت ہو کیونکہ اولیاء اللہ سے محبت اللہ عزوجل سے محبت ہے ۔ہمارا طریقہ تین چیزوں پر مشتمل ہے : نہ تو کسی سے مانگو ،نہ کسی سائل کو منع کرو اور نہ ہی کچھ جمع کرو ۔
(مناقب الاقطاب الاربعہ الشیخ یونس بن ابراہیم السامرائی)
وصال پرملال: حضرت سید احمدکبیر رَفاعی علیہ الرحمہ مکمل 66 سال تک اس دارِ فانی میں رہ کر مخلوقِ خدا کی رُشد وہدایت کا کام سرانجام دینے کے بعدبروزجمعرات جمادی الاولی ھ بوقتِ ظہر اس عالمِ فنا سے عالمِ بقا کا سفر اختیار کیا۔نمازِ جنازہ کے وقت کئی لاکھ کا مجمع موجود تھا،بعدنمازِ جنازہ خانقاہ ِاُمِّ عَبیدہ (صوبہ ذِیقار، جنوبی عراق) میں آپ کی تدفین کی گئی۔
آج حضرت شیخ سید احمدکبیر رفاعی علیہ الرحمہ کے وصال مُبارک کو ہوئے صدیاں بیت چکیں ہیں مگر اس کے باوجود جنوبی عراق میں آپ کا مزارمبارک بے شمار عقیدت مندوں کی اُمیدوں کامرکز ومنبع بنا ہواہے۔
مراجع ومصادر: سیرت سلطان الاولیاء ، وکی پیڈیا۔ البنیان المشید ترجمہ۔البرہان الموید، مناقب الاقطاب الاربعہ الشیخ یونس بن ابراہیم السامرائی۔