ازقلم: مفتی محمد شعیب رضا نظامی فیضی
قاضی شہر گولا بازار ضلع گورکھ پور یو۔پی۔
استاذومفتی: دارالعلوم امام احمد رضا بندیشرپور سدھارتھ نگر یو۔پی۔
اللہ رب العزت نے اپنے اس حسین کائنات میں عقلوں کو کھیرہ کردینے والی وہ حکمتیں پوشیدہ کر رکھی ہے کہ جن حکمتوں سے ہمیں روز بروز اس کی قدرت پر یقین بڑھتا چلا جائے۔ اس نے پوری کائنات میں سب سے انمول مخلوق انسان کو بنایا؛ اسے ہاتھ و پیر بھی دیئے، اسے ناک و کان بھی دیئے، اسے دندان و زبان بھی دی، اسے تین مختلف قسم کے نفس بھی دیئے، اسے عقل بھی دیا اور اس عقل میں مختلف انواع و جہات کی چیزوں پر غور و فکر کرنے کے مادہ کے ساتھ ساتھ انھیں محفوظ رکھنے کی قوت بھی عطا کی اور ہاں اسے چیزو، کے بھولنے (نسیان) کی دولت سے بھی نواز کر اپنی حکمتوں کا عظیم شاہکار بنادیا۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بھولنا(نسیان) تو ایک بیماری ہے اس سے خدا کی قدرت و حکمت کہاں آشکار ہورہی ہے اور کیسے ایک بیماری انسان کے لیے نعمت بن گئی؟؟؟ تو آپ حق بجانب ہیں مگر خدا حکیم مطلق ہے جناب! اور "فعل الحکیم لایخلو عن الحکمة” حکیم کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ انسان کو بھولنے کی قوت خدا نے اس لیے عطا کی کہ انسان کچھ چیزوں کو بھول جائے تاکہ اس کے دماغ پر زیادہ بوجھ نہ رہے۔ آپ خود غور کریں کہ ہم دن میں کتنی چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں، کتنی باتوں کو سنتے ہیں اور وہ سب کے سب عقل و دماغ میں جمع(اسٹور) ہوتے ہیں، اب ہمارا دماغ ہے تو ایک مخلوق ہی وہ کتنا مواد اپنے پاس جمع کر سکتا ہے اسی لیے ہمارے قوت نسیان کا کام ان میں سے چیزوں کو مٹانے کا ہوتا ہے ہاں یہ الگ بات ہے کہ مٹائی جانے والی چیزیں ضروری ہوتی ہیں یا غیر ضروری؟ یہ انسان کی توجہ اور التفات پر مبنی ہوتا ہے۔
اب رہی یہ بات کہ پھر خدا نے انسان کے عقل و دماغ کا پیمانہ(کیپیسٹی) کیوں نا بڑھا دی کہ سبھی چیزوں کو محفوظ کرسکے اور بھولانے کی ضرورت ہی نا پیش آسکے کیوں کہ کبھی کبھی غیرضروری معاملات کے ساتھ ضرور امور بھی نسیان کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں؟؟؟ تو اس کا جواب ہے کہ پھر خدا انسان کو بغیر عقل کے ہی ساری چیزوں کو محفوظ کرنے کی قوت دے سکتا تھا جیسے وہ خود ساری چیزیں محفوظ کرتا ہے مگر عقل و دماغ ہی نہیں جسم و جسمانیت سے ہی پاک و منزہ ہے۔ مگر اس کو اپنا بندہ پیدا کرنا تھا شریک نہیں کہ وہ شرکت سے بے نیاز ہے۔ فاعتبروا یا اولی الالباب