ازقلم: محمد فہیم جیلانی احسن مصباحی معصوم پوری، مرادآباد،
faheemjilani38038@gmail.com
🔸صدقۂ فطر یہ روزہ میں واقع ہونے والی کوتاہی اور نقص و کمی کی تلافی اور غرباء کو عید الفطر کے موقع پر اپنی خوشی و مسرت میں شریک کرنے کا ذریعہ ہے۔ تاکہ اس سے ان کی خوراک کا انتظام ہو جائے اور یہ سوال سے بھی بچ جائیں ۔
حدیث پاک میں ہے "فَرَضَ رَسُولُ الله ﷺ زکٰوۃ َالْفِطْرِ طُهْرًا لِصِیَامٍ مِنَ الْلَغْوِ وَالرَّفَثِ وَ طُعْمَةً لِلْمَسَاکِیْن”
رسول اﷲﷺ نے صدقۂ فطر مقرر فرمایا کہ لغو اور بیہودہ کلام سے روزہ کی طہارت اورمساکین کی خورش (خوراک) ہو جائے۔
(سنن أبي داود ‘‘ ، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الفطر، الحدیث : ۱۶۰۹ ، ج ۲ ، ص ۱۵۷۔ مشکوۃ شریف باب صدقة الفطر ص ۱۶۰)
🔸صدقۂ فطر ہر مسلمان مالکِ نصاب پر واجب ہے،اور مرد پر اپنی طرف سے اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے بھی واجب ہے جبکہ وہ خود مالک نصاب نہ ہو۔
یعنی جن کی کفالت کسی صاحب نصاب کے ذمہ ہو تو یہ شخص ان سب لوگوں کی جانب سے صدقہ ادا کرے گا۔ باپ پر واجب ہے کہ وہ اپنے نابالغ غیر صاحب نصاب بچوں کی جانب سے صدقۂ فطر ادا کرے، اور اسی طرح سے مالک پر اپنے غلام ، مدبر اور ام ولد کی طرف سے صدقہ ادا کرنا واجب ۔شوہر پر واجب نہیں کہ وہ اپنی بیوی کی طرف سے صدقہ ادا کرے ۔
(الدرالمختار ، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج ۳ ، ص ۳۶۲ ۔ ۳۶۵۔ )
🔸صدقۂ فطر کے مصارف: وہی ہیں جو زکاۃ کے ہیں،ہاں! زکاۃ کے مصارف میں تو "عامل” شامل ہے مگر صدقۂ فطر کے مصارف میں نہیں۔
🔸صدقۂ فطر کی مقدار: نصف صاع گیہوں ، یا ایک صاع کھجور،یا منقے،یا جَو ۔ جیسا کہ مروی ہے:
” رسول اﷲ ﷺنے عید الفطر کی زکاۃ فرض کی ایک صاع کھجوریں یا جَو، مسلمانوں میں سے ہر غلام اور آزاد مرد وعورت چھوٹے بڑے پر اور یہ حکم دیا: کہ ’’نماز کوجانے سے پیشتر ادا کردیں ۔‘‘
(صحیح البخاري ، أبواب صدقۃ الفطر، باب فرض صدقۃ الفطر، الحدیث : ۱۵۰۳ ، ج ۱ ، ص ۵۰۷)
اور بعض حدیث میں پنیر اور کشمش کا بھی ذکر ملتا ہے۔
🔸موجودہ اوزان : صاع یہ عہد رسالت کا ایک پیمانہ ہے جس میں ۴ /کلو ۹۴/ گرام گیہوں آتا ہے۔
تو اگر کوئی گیہوں سے صدقۂ فطر ادا کرے تو ۲ کلو ۴۷ گرام گیہوں یا اس کی قیمت ادا کرے، کھجور ،منقے ، کشمش سے ادا کرے تو کسی ماہر دکان دار سے ان اجناس کے صاع کا موجودہ وزن بھی معلوم کر لے۔
🔸صدقۂ فطر میں گیہوں، جو، کھجور، منقی، کشمش اور پنیر اجناس مختلفہ کا ذکر آیا ہے اس لیے صدقۂ فطر کے ادا کرنے میں ہمیں تنوع پر عمل کرنا چاہیے یعنی جن کی جیسی حیثیت ہو وہ اپنی حیثیت کے اعتبار سے صدقۂ فطر ادا کریں، مثلاً جو کروڑ پتی ہیں وہ چار کلو پنیر کے حساب سے صدقۂ فطر ادا کریں، جو لکھ پتی ہیں وہ چار کلو کشمش کے حساب سے صدقۂ فطر ادا کریں، جو ہزاروں روپے کمانے والے ہیں وہ چار کلو کھجور کے حساب سے صدقۂ فطر ادا کریں، اور جن کو سینکڑوں کی آمدنی ہے وہ دو کلو گندم کے حساب سے صدقہ فطر ادا کریں۔
آقا کریم ﷺ نے جس طرح قربانی کے جانوروں میں تنوع کو مشروع اور مسنون فرمایا (مسلمان حسبِ استطاعت بکروں ،گایوں اور اونٹوں کی قربانی کرتے ہیں) اسی طرح سرکار ﷺ نے صدقۂ فطر میں بھی تنوع کو مشروع فرمایا۔لیکن آج چاہے امیر ہو یا غریب سبھی گیہوں ہی کے اعتبار سے صدقۂ فطر ادا کرتے ہیں۔
بلکہ اس میں تو یہ چاہیے کہ اجناس مختلفہ مذکورہ میں سے اپنی حسب حیثیت اعلی قسم کا انتخاب کیا جائے ۔ اللہ کی بارگاہ میں اس کا اجر و ثواب ملے گا۔
( خلاصہ از نعمة البارى شرح صحيح البخاري، کتاب الزکوٰۃ، ص ۷۶۴)
🔸حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے بہار شریعت میں در مختار اور فتاویٰ عالمگیری کے حوالہ سے نقل کیا ہے
” ان چار چیزوں کے علاوہ اگر کسی دوسری چیز سے فطرہ ادا کرنا چاہے، مثلاً چاول، جوار، باجرہ یا اور کوئی غلّہ یا اور کوئی چیز دینا چاہے تو قیمت کا لحاظ کرنا ہوگا یعنی وہ چیز آدھے صاع گیہوں یا ایک صاع جَو کی قیمت کی ہو، یہاں تک کہ روٹی دیں تو اس میں بھی قیمت کا لحاظ کیا جائے گا اگرچہ گیہوں یا جَو کی ہو”۔
🔸صدقۂ فطر کے وجوب کا وقت طلوع فجر صادق ہے یعنی صبح صادق طلوع ہوتے ہی صدقۂ فطر واجب ہوجاتا ہے اور عید کے دن فجر کی نماز کے بعد عیدگاہ جانے سے پہلے اداکرنا مستحب ہے۔ جیسا کہ بخاری شریف کی ایک حدیث ہے: "اَنَّ النَبِیَّﷺ اَمَرَ بِزَکٰوةِ الفِطْرِ قَبْلَ خُرُوْجِ النّاسِ اِلی الصّلٰوۃ "اور عید الفطر کے دن سے پہلے بھی صدقہ فطر ادا کرنا جائز ہے۔
🔸اور جو بچہ عید الفطر کے دن صبح صادق سے پہلے یا صبح صادق کے وقت پیدا ہوا ہے، تو اس کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے اور اگر بچہ صبح صادق کے بعد پیدا ہوا ہے، تو اس کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب نہیں ہے۔
🔸اور صدقہ فطر ادا نہ کرنے کی صورت میں بندہ کا روزہ آسمان و زمین کے درمیان معلّق رہتا ہے۔
آقا ﷺنے فرمایا: ’’بندہ کا روزہ آسمان و زمین کے درمیان معلّق رہتا ہے ،جب تک صدقۂ فطر ادا نہ کرے۔‘‘
(کنز العمال، باب صدقۃ الفطر ج ۴، حدیث ۴۶۴۵)
🔸”صدقۂ فطر واجب ہے، عمر بھر اس کا وقت ہے یعنی اگر ادا نہ کیا ہو تو اب ادا کر دے۔ ادا نہ کرنے سے ساقط نہ ہوگا، نہ اب ادا کرنا قضا ہے بلکہ اب بھی ادا ہی ہے اگرچہ مسنون قبل نمازِ عید ادا کر دینا ہے۔”
(بہار شریعت ج ۱ ص ۹۴۱)