ازقلم: عبدالرشید امجدی اتردیناج پوری
تنظیم پیغام سیرت، مغربی بنگال
مسجِد میں اللہ تعالیٰ کی رِضا کیلئے بہ نیت اِعتکاف ٹھہرنا اِعتکاف ہے۔ ‘‘ اس کیلئے مسلمان کا عاقل ہونا اور جَنابت اورحیض ونفاس سے پاک ہوناشرط ہے۔بلوغ شرط نہیں ، نابالغ بھی جو تمیز رکھتا ہے اگر بہ نیّتِ اعتکاف مسجِد میں ٹھہرے تواُس کا اعتکاف صحیح ہے۔ (عالمگیری ج۱ ص ۲۱۱)
اعتکاف کے لغوی معنی:
اِعتکاف کے لغوی معنی ہیں : ’’ ایک جگہ جمے رہنا ‘‘ مطلب یہ کہ معتکف اللہ ربُّ العزّت کی بارگاہِ عظمت میں اُس کی عبادت پرکمر بستہ ہو کر ایک جگہ جم کر بیٹھا رہتا ہے۔ اس کی یہی دُھن ہوتی ہے کہ کسی طرح اس کا پَروردگار اس سے راضی ہوجائے۔
دو حج اور دو عمروں کا ثواب
(1) جس نے رَمَضانُ الْمُبارَک میں دس دن کا اعتکاف کرلیاوہ ایسا ہے جیسے دوحج اوردوعمرے کئے۔
(شُعَبُ الْاِیمان جلد نمبر 3)
(2)اِعتکاف کرنے والاگناہوں سے بچا رہتا ہے اور اس کیلئے تمام نیکیاں لکھی جا تی ہیں جیسے ان کے کرنے والے کے لئے ہوتی ہیں۔‘‘(ابنِ ماجہ جلد نمبر 2)
مُفَسِّرِ شہیر حکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ الرحمہ حدیث نمبر 2 کے تحت مراٰۃ جلد 3 صفحہ 217 پر فرماتے ہیں : ’’ یعنی اعتکاف کا فوری فائدہ تو یہ ہے کہ یہ معتکف کو گناہوں سے باز رکھتا ہے۔ عَکْف کے معنی ہیں روکنا، باز رکھنا، کیونکہ اکثر گناہ غیبت، جھوٹ اور چغلی وغیرہ لوگوں سے اختلاط کے باعث ہوتی ہے معتکف گوشہ نشین ہے اور جو اس سے ملنے آتا ہے وہ بھی مسجد و اعتکاف کا لحاظ رکھتے ہوئے بری باتیں نہ کرتا ہے نہ کراتا ہے۔ یعنی معتکف اعتکاف کی وجہ سے جن نیکیوں سے محروم ہوگیا جیسے زیارتِ قبور مسلمان سے ملاقات بیمار کی مزاج پرسی ، نمازِ جنازہ میں حاضری اسے ان سب نیکیوں کا ثواب اسی طرح ملتا ہے جیسے یہ کام کرنے والوں کو ثواب ملتا ہے، غازی، حاجی ، طالب علم دین کا بھی یہ ہی حال ہے۔ ‘‘
روزانہ حج کا ثواب
حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے منقول ہے: ’’ معتکف کو ہر روز ایک حج کا ثواب ملتاہے۔‘‘ (شُعَبُ الْاِیمان جلد 3)
اعتکاف کی مشروعیت
اعتکاف فضیلت کے کاموں اور بڑی عبادات میں سے ایک عبادت ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں "رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اس فانی دنیا سے پردہ فرمانے تک رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے اور ان کے بعد ان کی ازواج مطہرات اعتکاف کیا کرتی تھیں۔
اعتکاف کا حکم
اعتکاف ہر وقت سنت ہے اور سب سے بہتر رمضان کا آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رمضان کے آخری عشرہ میں ہمیشہ اعتکاف کیا کرتے تھے۔
اعتکاف کی شرطیں
1- اعتکاف کی نیّت کرنا
اعتکاف کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ ثواب اور اللہ کی عبادت کی نیت سے مسجد کو لازم پکڑنے کی نیت کر لے کیونکہ رسول اللہ صلی علیہ و سلم فرماتے ہیں ” اعمال کا دارومدار نیّتوں پر ہوتا ہے” (بخاری جلد 2)
2۔ دوسری شرط یہ ہے کہ جس مسجد میں اعتکاف کیا جا رہا ہو اس میں باجماعت نماز ہوتی ہو۔
(امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے : اعتکاف صرف ایسی جامع مسجد میں درست ہے جہاں پانچوں وقت کی نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہوں اور یہی امام احمد کا قول ہے۔ علامہ ابن ہمام نے کہا : اس کو بعض مشائخ نے صحیح قرار دیا ہے۔ قاضی خان نے کہا : اور ایک روایت میں ہے کہ اعتکاف جامع مسجد میں ہی درست ہے اور یہی حدیث کا ظاہری معنی ہے۔ اور امام ابو یوسف اور امام محمد سے مروی ہے کہ اعتکاف کسی بھی مسجد میں جائز ہے اور یہی امام مالک اور امام شافعی کا بھی قول ہے۔ (ملا علی قاری، مرقاة المفاتيح، جلد 4 صفحہ530)
اس سے معلوم ہوا کہ مسجد کے بغیر اعتکاف ٹھیک نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ” اور عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو ” اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی ہمیشہ مسجد میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔
اور مسجد بھی ایسی ہو جس میں با جماعت نماز ہوتی ہو کیونکہ اگر وہ ایسی مسجد میں اعتکاف کرتا ہے جس میں باجماعت نماز نہ ہوتی ہو تو اس سے جماعت کا ترک کرنا لازم آتا ہے اور باجماعت نماز پڑھنا واجب ہے
اور اگر وہ باجماعت نماز پڑھنے کے لیے کسی اور مسجد میں جاتا ہے تو اس سے مسجد سے بار بار نکلنا لازم آتا ہے جو کہ اعتکاف کے مقصود کے خلاف ہے۔
اور بہتر یہ ہے کہ آدمی اس مسجد میں اعتکاف کے لیے بیٹھے جس میں جمعہ کی نماز بھی ہوتی ہو لیکن یہ اعتکاف کے لیے شرط نہیں ہے۔
اعتکاف کا وقت اور زمانہ
اعتکاف ہر روز اور ہر وقت جائز ہے مگر بہتر یہ ہے کہ
رمضان کے آخری عشرہ میں
رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف کے اوقات میں سے سب سے بہتر وقت ہے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ” نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس فانی دنیا سے پردہ فرمانے تک رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے اور ان کے بعد ان کی ازواج مطہرات اعتکاف کیا کرتیں تھیں”
اور جس کسی نے رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کی نیت کی تو وہ اکیسویں رات کے صبح کی نماز اس مسجد میں جس میں اس نے اعتکاف کا ارادہ کیا ہے ادا کرے اور اعتکاف کے لیے بیٹھ جائے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہر رمضان میں اعتکاف کیا کرتے تھے اور جب صبح کی نماز پڑھ لیتے تو اس جگہ چلے جاتے تھے جہاں انہوں نے اعتکاف کی نیت کی ہوتی تھی "
اور رمضان المبارک کے آخری دن کا روزہ افطار کرتے ہی اعتکاف ختم ہو جاتا ہے اور بہتر یہ ہے کہ وہ عید کی صبح کو مسجد سے نکلے اور یہی بزرگوں سے ثابت ہے۔
اعتکاف کی قسمیں
اِعتکاف کی تین قسمیں ہیں {1} اعتکافِ واجِب {2} اعتکافِ سُنّت ( 3) اِعتکافِ نَفْل۔
اعتکافِ واجب
اِعتکاف کی نذر مانی یعنی زَبان سے کہا ’’اللہ تعالیٰ کیلئے میں فلاں دن یا اتنے دن کااِعتکاف کر و ں گا۔ ‘‘ تواب جتنے دن کا کہا ہے اُتنے دن کا اِعتکاف کرناواجب ہو گیا ۔ منَّت کے اَلفاظ زَبان سے اداکرنا شرط ہے، صرف دل ہی دل میں منَّت کی نیَّت کرلینے سے منَّت صحیح نہیں ہوتی۔ اور ایسی منَّت کاپوراکرناواجب نہیں ہوتا (رَدُّالْمُحْتار ج۳ص۴۹۵)
منَّت کااعتکاف مردمسجدمیں کرے اورعورت مسجد بیت میں اِس میں روزہ بھی شرط ہے ۔ عورت گھر میں جو جگہ نمازکیلئے مخصوص کرلے اُسے مسجدِ بیت کہتے ہیں۔
اعتکافِ سنت
رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخِری عشرے کااعتکاف ’’ سنَّتِ مُؤَکَّدَہ عَلَی الْکِفایہ ‘‘ ہے۔ دُرِّ مُخْتار
اگر سب ترک کریں تو سب سے مطالبہ ہوگا اور شہر میں ایک نے کر لیا تو سب بری الذِّمَّہ۔
(بہار شریعت ج1)
اِس اعتکاف میں یہ ضروری ہے کہ رَمَضانُ الْمُبارَک کی بیسویں تاریخ کوغروبِ آفتاب سے پہلے پہلے مسجِدکے اندر بہ نیّتِ اعتکاف موجود ہو اور اُنتیس (29) کے چاندکے بعد یاتیس کے غُروبِ آفتاب کے بعدمسجِدسے باہَر نکلے۔ اگر 20 رَمَضانُ المبارک کوغروبِ آفتاب کے بعدمسجدمیں داخل ہوئے تو اِعتکاف کی سنّتِ مُؤَکَّدَہ ادانہ ہوئی۔
اعتکافِ نفل
نذر اور سنّتِ مُؤَکَّدہ کے علاوہ جو اعتکاف کیاجا ئے وہ مستحب و سنّتِ غیر مُؤَکَّدہ ہے۔ (بہار شریعت ج1)
اِس کیلئے نہ روزہ شرط ہے نہ کوئی وَقت کی قید، جب بھی مسجِد میں داخل ہوں اِعتکاف کی نیّت کرلیجئے، جب مسجِد سے باہرنکلیں گے اِعتکاف ختم ہوجا ئے گا۔ میرے آقا اعلٰی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جب مسجد میں جا ئے اِعتکاف کی نیَّت کرلے، جب تک مسجد ہی میں رہے گا اِعتکاف کا بھی ثواب پائے گا۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۸ص۹۸)
نیَّت دل کے ارادے کوکہتے ہیں ، اگر دل ہی میں آپ نے ارادہ کر لیا کہ ’’ میں سنّتِ اِعتکاف کی نیّت کرتا ہوں ۔ ‘‘ آپ معتکف ہو گئے، دل میں نیّت حاضر ہوتے ہوئے زَبان سے بھی یہی الفاظ کہہ لینا بہتر ہے ۔ مادَری زَبان میں بھی نیّت ہوسکتی ہے مگرعربی میں زیادہ بہتر جبکہ معنی ذہن میں موجود ہوں ۔
ملفوظاتِ اعلٰی حضرت‘‘ صَفْحَہ317پرہے:
اعتکاف کے ممنوعات و مکروہات
بلاضرورت باتیں کرنا۔ اعتکاف کی حالت میں فحش یا بےکار اور جھوٹے قصے کہانیوں یا اسلام کے خلاف مضامین پر مشتمل لٹریچر ،تصویر دار اخبارات و رسائل یا اخبارات کی جھوٹی خبریں مسجد میں لانا،رکھنا،پڑھنا،سننا۔ ضرورت سے زیادہ سامان مسجد میں لا کر بکھیر دینا۔ مسجد کی بجلی،گیس اور پانی وغیرہ کا بےجا استعمال کرنا۔ مسجدمیں سگریٹ وحقہ پینا۔ اجرت کے ساتھ حجامت بنانا اور بنوانا، لیکن اگر کسی کو حجامت کی ضرورت ہے اور بغیر معاوضہ کے بنانے والا میسر نہ ہو تو ایسی صورت اختیار کی جا سکتی ہےکہ حجامت بنانے والا مسجد سے باہر رہے اور معتکف مسجد کے اندر۔
حاجاتِ طبعیہ
پیشاب،پاخانہ اوراستنجے کی ضرورت کیلیے معتکف کو باہر نکلنا جائز ہے،جن کے مسائل مندرجہ ذیل ہیں:
پیشاب، پاخانہ کیلیے قریب ترین جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے۔
اگر مسجد سے متصل بیت الخلاء بنا ہوا ہے اور اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے تووہیں ضرورت پوری کرنی چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہے تو دور جا سکتا ہے، چاہےکچھ دورجانا پڑے۔
اگر بیت الخلاء مشغول ہو تو انتظار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ فارغ ہونے کے بعد ایک لمحہ بھی وہاں ٹھہرنا جائز نہیں۔
قضاء حاجت کیلیے جاتے وقت یا واپسی پر کسی سے مختصر بات چیت کرنا جائز ہے، بشرطیکہ اس کیلیے ٹھہرنا نہ پڑے۔
۔ اعتکاف ختم کرنے کا پُختہ ارادہ کرنا۔
اگر مسلمان نے خاص دنوں میں اعتکاف کی نیت کی پھر اس نے اعتکاف منقطع کر دیا یعنی درمیان میں توڑ دیا تو اس کے لیے اس اعتکاف کی قضاء کرنا جائز ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ” جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو صبح کی نماز پڑھ کر مسجد میں اعتکاف کی جگہ میں داخل ہو جاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھےپھر حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے بھی اپنا خیمہ لگانے کا حکم دیا جولگا دیا گیا اور باقی ازواج مطہرات نے بھی اپنے اپنے خیمے لگانے کا حکم دیا جو لگا دیے گئے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے صبح کی نماز پڑھی اور خیموں کی طرف دیکھا تو ہر طرف خیمے ہی خیمے تھے پس رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کیا تم نیکی چاہتیں ہو پس اپنا خیمہ گرانے کا حکم دیا جو کہ گرا دیا گیا اور رمضان المبارک میں اعتکاف چھوڑ کر شوال کے پہلے دس دنوں میں اعتکاف فرمایا یعنی رمضان والے اعتکاف کی قضا کی”اور ایک روایت میں ہے کہ “شوال کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرمای ” اس حدیث کو امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے
اعتکاف کرنے والا مریض کی عبادت نہیں کر سکتا اور نہ ہی جنازے میں شریک ہو سکتا ہے اور اعتکاف کی جگہ میں وہ اللہ کی عبادت کے لیے ساری دنیا سے منقطع ہو جاتا ہے۔