مذہبی مضامین

پردے کی شرعی حیثیت اور کرناٹک حجاب معاملہ (قسط دوم)

ازقلم: محمد ایوب مصباحی

گزشتہ سے پیوستہ

١_ یایھا الذین آمنو لاتدخلوا بیوت النبی الا ان یؤذن لکم الی طعام غیر نٰظرین انٰہ ولکن اذا دعیتم فادخلوا فاذا طعمتم فانتشروا ولا مستأنسین لحدیث ان ذالکم کان یؤذی النبی فیستحیی منکم واللہ لایستحیی من الحق واذا سألتموھن متاعا فأسئلوھن من وراء حجاب ذٰلکم اطھر لقلوبکم وقلوبھن وما کان لکم ان تؤذوا رسول اللہ ولا ان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابدا ان ذٰلکم کان عند اللہ عظیما (احزاب، ٥٣)
ترجمہ: اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ مثلا کھانے کے لیے بلاۓ جاؤ، نہ یوں کہ اس کے پکنے کی راہ تکو، ہاں جب بلاۓ جاؤ تو حاضر ہو اور جب کھاچکو تو متفرق ہوجاؤ، نہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں دل بہلاؤ، بے شک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمھارا لحاظ فرماتے تھے اور اللہ حق فرمانے میں نہیں شرماتا اور جب تم ان سے برتنے کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر مانگو، اس میں زیادہ ستھرائی ہے تمھارے دلوں اور ان کے دلوں کی، اور تمھیں نہیں پہونچتا کہ رسول اللہ کو ایذا دو اور نہ یہ کہ ان کے بعد کبھی ان کی بیویوں سے نکاح کرو بے شک یہ اللہ کے نزدیک بڑی سخت بات ہے۔ (کنز الایمان)
اس آیت میں متعدد احکام بیان ہوۓ، ان میں سے ایک حکم یہ بیان ہوا کہ جب تم ازواج مطہرات سے کوئی سامان مانگا کرو تو پردے کے باہر سے مانگا کرو یعنی تمھارے اور ازواج کے درمیان پردہ حائل ہو، یہ پردہ بایں طور ہوسکتا ہے کہ عورت گھر کے اندر ہو دروازے پر پردہ لٹکا ہو اور وہیں سے سارے کام انجام دے لیکن یہ انتہائی دشوار ہے۔ لہذا آسانی کے لیے علما نے فرمایا کہ چہرے پر نقاب ڈال کر اور ہاتھوں میں دستانے چھڑھاکر گھر سے باہر نکل سکتی ہے۔ البتہ اس آیت پر ایک اعتراض وارد کیا جاتاہے کہ یہ حکم تو ازواج مطہرات کے لیے تھا، لیکن تمام مسلم خواتین پر لازم کیوں کردیا گیا؟ واضح رہے کہ قرآنی احکام کے اسباب نزول خاص ہوتے ہیں لیکن ان کا حکم عام ہوتاہے جیسا کہ اصول تفسیر میں بیان کیا جاتاہے۔
امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے فرمایا: "اختلف اہل الاصول ھل العبرۃ بعموم اللفظ، أو بخصوص السبب؟ والأصح عندنا الاول۔ "
(الاتقان فی علوم القرآن، الجزء الاول، المسئلة الثانیۃ ص:١٩٦)
کہ اہل اصول نے اس میں اختلاف کیا، کیا عموم لفظ کا اعتبار ہے یا خصوص سبب کا؟ تو صحیح تر ہمارے نزدیک اول ہے یعنی لفظ کے عموم کا اعتبار ہوگا۔
اس آیت کے تحت صدر الافاضل نعیم الدین مرادابادی فرماتے ہیں: ” اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں پر پردہ لازم ہے اور غیر مردوں کو کسی گھر میں بلااجازت داخل ہونا جائز نہیں آیت اگرچہ خاص ازواج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں وارد ہوئی لیکن حکم اس کا تمام تمام مسلمان عورتوں کے لیے عام ہے۔ "

٢_حجاب اسلام میں ضروری ہے یعنی سر پر اوڑھنی ڈال کر چہرے پر لٹکالینا یا نقاب کی طرح آنکھیں چھوڑ کر اپنے سارے چہرے کو چھپا لینا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے عورت کو زمین پر اتنی زور سے قدم رکھنے_ کہ مرد اس کی پائل کی آواز سن لے_سے بھی منع فرمایا تاکہ لوگوں فتنہ میں نہ پڑجائیں تو چہرہ کھلا رکھ کر غیر محرموں کے سامنے جانا کیوں کر جائز ہوسکتاہے؟ جب کہ چہرہ پائل کی بنسبت مزید جاذب اور پر کشش ہوتاہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
"ولایضربن بارجلھن لیعلم ما یخفین من زینتھن۔ "

ترجمہ: اور زمین پر پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جانا جاۓ ان کا چھپا ہوا سنگار۔ (کنز الایمان)

٣_حجاب اسلام میں ضروری ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نےیہاں تک حکم فرمایا کہ عورتیں اپنی نگاہیں نیچی رکھیں جیسا کہ آگے آرہاہے اور مرد بھی جیسا کہ گزرچکا اور عورت اپنی زینت یعنی بناو سنگار ظاہر نہ کریں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہو،اس لیے کہ یہ سب انسان کے بہکنے کے محرکات ہیں جب غیر محرم پر نظر پڑتی ہے تو اس کے حسن وجمال کا تیر آنکھوں کے راستے دل میں پیوست ہوتاہے تو پھر یہ اجازت کیسی ہوسکتی ہے؟ کہ چہرہ کھلا رکھ کر غیر محرموں کے سامنے آیا جاۓ بلکہ یہ بھی حکم فرمادیا کہ اپنے سینوں پر دوپٹے ڈالے رہیں اس لیے کہ اسے دیکھ کر مرد بہک جاتاہے تو جو کشش اور جازبیت سینے میں ہوتی ہے وہی چہرے میں بھی ہوتی ہے تو چہرے کو حجاب سے چھپانا تو بدرجۂ اولی ضروری گا۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان عزت نشان ہے:
"قل للمؤمنات یغضضن من ابصارھن ویحفظن فروجھن ولا یبدین زینتھن الا ما ظہر منھا ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن۔ الآیۃ۔ "
اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناو نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں۔ (کنزالایمان)
عورت کا تمام بدن چھپانا فرض ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ چہرا بھی چھپانا یعنی اس پر حجاب لگانا ضروری ہے یا نہیں؟ تو اس بابت اصل کلی یہ ہے کہ مرد کو اگر ہواے نفس کا خوف ہو تو عورت حرہ مطلقہ کا تمام جسم حتی کہ چہرہ اور قدم بھی دیکھنا اس کے لیے ممنوع و ناجائز ہے اور اگر بے خوف ہو تو جائزہ کہ صرف چہرہ ، ہتھیلی اور قدم دیکھ سکتاہے لیکن یہ بھی مسلمات سے ہے کہ اس زمانے میں کون فتنہ سے بے خوف ہوسکتا ہے؟ لہذا ضرورت شرعی کے سوا ہر حال میں حرہ مطلقہ کا پورا جسم مرد کو دیکھنا ممنوع ہے۔ جیساکہ صدر الافاضل نعیم الدین مرادابادی فرماتے ہیں :
"حرہ اجنبی کے تمام بدن کا دیکھنا ممنوع ہے ان لم یأمن من الشھوۃ وان أمن منھا فالممنوع النظر الی ما سوی الوجہ والکف والقدم، ومن یأمن فان الزمان زمان الفساد فلا یحل النظر الی الحرۃ الاجنبیۃ مطلقا من غیر ضرورۃ۔

(تفسیر خزائن العرفان علی کنز الایمان، زیر آیت: قل للمؤمنات یغضضن الدین)
یہ زمانہ جب زمانۂ فساد ہے تو عورت پر ضروری ہوا کہ اپنے چہرے کو کپڑے سے چھپا کر باہر نکلے اور اسی چیز کا نام حجاب ہے۔

٤_ حجاب اسلام میں ضروری ہے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا: "ولا تبرجن تبرج الجاہلیۃ الاولی۔ "
اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی (کنز الایمان)
یہاں اگلی جاہلیت سے مراد قبل اسلام کا زمانہ ہے۔ جس میں عورتیں اتراکر چلتی تھیں اپنی زینت و محاسن کا اظہار کرتیں اور بے پردہ ہوتیں تاکہ مرد انھیں دیکھ کر ان کی طرف مائل ہوں۔

کرناٹک کے ہائی کورٹ میں حذب اختلاف کے وکیل نے اسلام حجاب کے ضروری نہ ہونے پر یہ دلیل پیش کی کہ قرآن مجید میں پردے کے بارے میں دو لفظ وارد ہوۓ ہیں، ایک خمار جو سورہ نور میں ہے دوسرا جلباب جو سورہ احزاب میں ہے۔ جب کہ ان میں سے کسی کا بھی مطلب حجاب نہیں لہذا حجاب مسلم خواتین پر زبردستی کی پابندی ہے۔ قارئین! ثانی الذکر پر بحث ہم ماقبل میں کرآۓ، کہ جلباب ایک بڑی چادر کو کہا جاتا ہے جو اس زمانہ میں برقع کے نام سے موسوم ہے اس سے تو بلا شبہ حجاب کا ثبوت فراہم نہیں ہورہا لیکن اس سے پہلے اسی آیت میں جو لفظ "یدنین ” ہے اس سے حجاب کا ثبوت ضرور ہورہا ہے جیسا کہ اس پر تفسیری عبارتیں گزر چکیں۔ دوسرا لفظ "خمار” ہے اس پر بھی اس کے موضع میں کافی تفسیری بحث ہوچکی اور ثابت ہوچکا کہ اس سے حجاب ہی مراد ہے۔
اب ہم اس آیت : ” ولا تبرجن تبرج الجاہلیۃ الآیۃ” کی تفسیر پیش کرتے ہیں جس سے ظاہر و باہر ہوگا کہ حجاب ہی ضروری ہے اسی سے کامل پردہ ہوسکتا ہے۔
آیت کریمہ میں ارشاد ہوا کہ بے پردہ نہ ہو جیسے اگلی جاہلیت کہ بے پردگی۔ اب یہ اگلی جاہلیت کہ بے پردگی کیا ہے؟آییے، اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
"تفسیر ابن کثیر ” میں ہے: "والتبرج انھا تلقی الخمار علی رأسھا ولاتشدہ فیواری قلائدھا وقرطھا وعنقھا ویبدو ذالک کلہ منھا۔ (تفسیر ابن کثیر، ج:٦، ص:٢٦٤/ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
ترجمہ:اور تبرج کا مطلب یہ ہے کہ عورت دوپٹہ اپنے سر پر ڈال لے، اور اسے باندھے نہ، پھر وہ اپنے ہار، بالی اور گردن کو چھپاۓ حالاں کہ یہ سب چیزیں اس سے ظاہر اور کھلی رہ جائیں۔
اس تفسیر میں صاف طور پر ہے کہ دوپٹے سروں پر کھلے رہتے تھے عورتیں اپنی بالیاں ہار اور گردنوں کو چھپانے کی کوشش کرتی تھیں لیکن چھپتی نہیں تھیں لہذا اگلی جاہلیت کی بےپردگی سے اسی وقت بچا جاسکتا ہے جب کہ دوپٹے کو چہرے پر باندھ لیا جائے اور یہی صورت حجاب یا نقاب کی ہے۔

(( نقاب ))
اس سے مراد حجاب ہی ہے اور اس کے دلائل بھی وہی ہیں جو حجاب کے ہیں صرف اعتباری یا لفظی فرق ہے۔

پردہ کب اور کس سے ضروری نہیں؟
اسلام ایک مکمل دستور حیات ہے پردے کے کپڑوں مثلا برقع،حجاب اور نقاب کا حکم ان عورتوں کو دیا جو قابل شہوت ونکاح ہوں جس میں یہ دونوں علتیں نہ ہوں انھیں اس حکم کا مکلف نہ کیا مثلا جو عورتیں کبر سنی کی عمر کو پہونچ گئیں کہ اب انھیں نکاح کی رغبت ہے نہ ان سے کسی کودلچسپی تو وہ اپنے بالائی کپڑوں کو اتار کر رکھ سکتی ہیں بشرطیکہ زینت کا اظہار نہ ہو۔ لیکن پہنے رہنا بہتر ہے۔
فرمایا: ” والقواعد من النساء اللتی لایرجون نکاحا فلیس علیھن جناح ان یضعن ثیابھن غیر متبرجٰت بزینۃ وان یستعففن خیر لھن واللہ سمیع علیم۔” ( نور، ٦٠)
ترجمہ: اور بوڑھی خانہ نشین عورتیں جنھیں نکاح کی آرزو نہیں ان پر کچھ گناہ نہیں کہ اپنے بالائی کپڑے اتار رکھیں جب کہ سنگار نہ چمکائیں اور اس سے بھی بچنا ان کے لیے بہتر ہے۔
پردہ غیر محرم سے ضروری ہے سورہ نور کی جس آیت سے پردے کا ثبوت ہوتاہے خود اس حکم کو آگے چل کر مقید کیا اور جن سے پردہ نہیں ان صورتوں کو مفصل بیان فرمایا۔
ارشاد فرمایا:” ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن ولا یبدین زینتھن الا لبعولتھن او آباءھن او آباء بعولتھن او ابناءھن او ابناء بعولتھن او اخوانھن او بنی اخوانھن او بنی اخواتھن او نساءھن او ماملکت ایمانھن او التابعین غیر اولی الاربۃ من الرجال او الطفل الذین لم یظہروا علی عورٰت النساء۔ "(نور:٣١)
ترجمہ: اور دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنا سنگار ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ یا شوہروں کے باپ یا اپنے بیٹے یا شوہروں کے بیٹے یا اپنے بھائی یا اپنے بھتیجے یا اپنے بھانجے یا اپنے دین کی عورتیں یا اپنی کنیزیں جو اپنے ہاتھ کی ملک ہوں یا نوکر بشرطیکہ شہوت والے مرد نہ ہوں یا وہ بچے جنھیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں۔
قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ جس سے نکاح حرام ہے اس سے پردہ نہیں اور جس سے نکاح حلال ہے اس سے پردہ ہے۔

دیور اور بہنوئی سے ہاتھ ملانا حرام اور پردہ ضروری ہے کہ یہ غیر محرم ہیں
عورتوں کی اپنے دیوروں سےاس قدر بےاحتیاطی معاشرے میں دیکھی جاتی ہے کہ عورتیں ان سے بلاتکلف نوک جھوک، باہمی آمد ورفت، خوش طبعی اور مزاق کرتی ہیں ۔ اسی طرح مرد اپنی بیوی کی بہن یعنی سالی سے بلکل بلاتکلف رہتا ہے جس کے نتائج آۓ دن اخباروں کی زینت بنتے رہتے ہیں عورت کے لیے اس کا دیور اور یونہی سالی کے لیے اس کا بہنوئی دونوں غیر محرم ہیں لہذا ان سے پردہ ضروری ہے۔
بلکہ دیور اور بہنوئی کو تو حدیث شریف میں موت سے تعبیر کیا گیا، حدیث شریف میں ہے:
"عن عقبۃ ابن عامر رضی اللہ تعالی عنہ، ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: ایاکم والدخول علی النساء، فقال رجل من الانصار : یا رسول اللہ! افرءیت الحمو؟ قال : الحمو الموت۔ "

(مسلم شریف، حدیث نمبر:۲۱۷۲)
حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں کے پاس جانے سے بچو، تو ایک انصاری صحابی نے عرض کی، یارسول اللہ مرد وعورت کے رشتہ داروں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ فرمایا یہ تو موت ہیں۔
یہاں حمو سے مراد شوہر کے قریبی اور عورت کے قریبی ہیں تفصیل کے لیے دیکھیں عون المعبود شرح سنن ابی داؤد، شرح المسلم لمنووا وغیرہ۔

اس کے علاوہ بے شمار احادیث وآثار ہیں جو پردے کے ضروری ہونے پر دلالت کرتے ہیں لیکن وقت کی قلت دامن گیر، مقالے کی عدم وسعت پر بنا کرتے ہوئے اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ ما اصابک من حسنۃ فمن اللہ وما اصابک من سیئۃ فمن نفسک” کے تحت جو اس میں صحیح ہے من جانب اللہ ہے جو سہو وخطاہے عبد مذنب سے سرزد ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے اس اقل قلیل کاوش کو قبول فرماۓ اور عوام وخواص کے لیے نفع بخش کردے، ان ارید الاصلاح مااستطعت وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت والیہ انیب۔