تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
سیدنا علی رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ کے ان اہم افراد میں شامل تھے جو تعلیم کا ماحول نہ ہونے کے باوجود لکھنے پڑھنے کا اعلی ذوق رکھتے تھے۔صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمانوں اور کافروں کے مابین جو صلح نامہ لکھا گیا وہ آپ نے ہی لکھا تھا۔اسی موقع پر نبی اکرم ﷺ کی ذات سے آپ کی بے لوث محبت کا ایک عدیم المثال منظر بھی سامنے آیا۔معاہدہ لکھتے ہوئے آپ نے تحریر فرمایا:
هَذَا مَا كَاتَبَ عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّهِ۔
"یہ معاہدہ ہے جس پر محمد رسول اللّه نے تحریری صلح فرمائی۔”
کفار مکہ کے سفیر سہیل بن عمرو نے "رسول اللہ” کے لفظ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے اور ہمارے درمیان اسی بات کا تو جھگڑا ہے۔اگر ہم آپ کو رسول مانتے تو اس صلح کی ضرورت ہی کیا تھی؟
فَلَوْ نَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللّهِ لَمْ نُقَاتِلْكَ۔
"اگر ہم جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ سے ہرگز نہ لڑتے۔”
حضور نے یہ سن کر حضرت علی کو لفظ "رسول اللہ” مٹانے کا حکم دیا۔
اب حضرت علی کے لیے آزمائش کا مرحلہ تھا۔عقل کا اصرار تھا کہ وہ لفظ مٹا دیا جائے مگر عشق کہتا تھا جس ذات کو "رسول اللّه” کو مان کر ابدی عزت ملی ہے، اس لفظ کو کس طرح مٹاؤں؟
عقل و عشق کے مابین جنگ چھڑ گئی آخر عشق بازی لے گیا اور آپ نے بہ بکمال ادب عرض کیا:
مَا أَنَا بِالَّذِي أَمْحَاهُ۔
"سرکار! میں اس لفظ کو نہیں مٹا سکتا۔”
حضرت علی عشق کے ہاتھوں مجبور تھے۔دلوں کے حال جاننے والے مصطفیٰ جان رحمت سے علی کی کیفیت پوشیدہ نہ تھی اس لیے آپ نے حضرت علی کے عشق کو عزت بخشتے ہوئے خود ہی اس لفظ کو مٹا دیا:
فَمَحَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ۔
"آخر رسول اللہﷺ نے اس لفظ کو اپنے ہاتھ سے مٹا دیا۔”
(صحیح مسلم،رقم الحدیث: 4629)
دیکھا کتاب عشق کے اوراق کھول کر
اول بھی تیرا نام تھا آخر بھی تیرا نام
(ماخوذ منزلوں کے نشاں ص 151/152)