ازقلم۔ محمد اشفاق عالم نوری فیضی
رکن ۔ مجلسِ علماے اسلام مغربی بنگال شمالی کولکاتا نارائن پور زونل کمیٹی کولکاتا136
رابطہ نمبر۔9007124164
مکرمی ………………..!
بعض لوگوں کا یہ کہنا کے مدینہ طیبہ جائیں تو روضہ رسولﷺ کی اور آقا علیہ السلام کے زیارت کی نیت سے نہ جائیں بلکہ مسجد نبوی کی زیارت کی نیت سے جائیں اب میں ایک چھوٹی سی بات پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر اللہ رب العزت نے رتی برابر بھی کسی کو عقل و شعور دیا ہے تو انکواور نادانوں کو سوچنا چاہیے کہ جس مسجد کی نیت کی زیارت کرنے کے لیے آتے ہو اس مسجد نبوی ﷺ کو یہ درجہ کس نے دیا ہے؟مسجدیں اور بھی بہت تھیں اللہ ربّ العزت کے گھر تو بہت ہیں اس مسجد نبوی ﷺ کو زیارت کے قابل کس نے بنایا ہے؟ اس میں اگر نماز پڑھیں تو پچاس ہزار نمازوں کا ثواب یہ درجہ جو مسجد نبوی کو حاصل ہے اسکا وسیلہ آخرکون بنا ؟ کتنی بے عقلی اور کیا ہی بے حکمتی کی بات ہے جس رسول اکرمﷺ کے قدموں کے صدقے سے مسجد نبوی کو مسجد حرام کے بعد کائنات میں سب سے اونچا درجہ ملا اسکی زیارت کی نیت حلال ہوجائے اور مسجد حرام کے بائیں جانب سنہری جالیوں کے بیج آرام فرما ہمارے آقا ﷺ کے روضہ کی زیارت حرام ہوجائیں ۔”انا للہ واناالیہ راجعون "۔
بڑی عجیب سوچ ہے ایسی سوچ رکھنے والے کو ہزاروں دفعہ سوچنا چاہیے کہ اس مسجد نبویﷺ کو فضیلت ہی توآقا علیہ السلام کے قدموں سے ملی ہے ہر روز پانچ مرتبہ نماز پڑھانے کے لئے حضور اکرم ﷺ اپنے کاشانہ نبوت سے نکلتے تھے اور نماز پڑھاتے تھے،گھر سے نکلتے پھر اندر چلے جاتے تھے دور دراز علاقوں سے وفود آتے ان سے وہی ملاقات کرتے مہمان سے ملتے ،اعتکاف میں بیٹھتے اور حلقات اور اجتماع کر تے آپ کے مبارک سانس کی ہوائیں جن کو معطر کیا تو آقا کے قدموں سے وہ مسجد نبوی اس قابل بنی کہ ایک وقت کی نماز ادا کرنے کا ثواب پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ملتا ہے یہ سب میرے آقا علیہ الصلاۃ والسلام کا ہی وسیلہ اور صدقہ ہے تو خود فیصلہ کیجئے کہ انکی زیارت کی نیت سے نہ جائے تو مسجد نبوی کی محض نیت کرکے جانا کیا عقل کی سوچ ہے۔ اللہ رب العزت کیا قبول کرے گا گویا نعمت عظمٰی کے اوپر ناشکری اور کفرانِ نعمت ہے ہم تو کہتے ہیں کہ بالکل مسجد نبوی کی زیارت کی نیت کرنی چاہیے وہاں نماز کی نیت کرنی چاہیے بڑا اجروثواب ملتا ہے مگر اس کا مطلب یہ کیسے ہوگیا کہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے روضہ کی زیارت کی نیت سے نہیں جانا چاہیے ۔ معاذاللہ صد بار معاذاللہ ہمارے لئے تو حکم ہے کہ اگر جانوں پر ظلم کر بیٹھے تو "جاوک ” اللہ کا حکم ہے کہ خواہ وہ لندن میں رہتے ہیں ،خواہ پاکستان میں رہتے ہیں ہمارے لیے حکم ہے کہ اگر جانوں پر ظلم کر بیٹھے ہیں تو” جاوک ” محبوب تیرے گنبد خضرا کے پاس چلے جائیں آپکی جالی مبارک کے پاس چلے جائیں ، آپکے روضہ اطہر پر آجائیں اور آپکے روضہ اطہر پر آکر اور یہ کہے باری تعالیٰ تونے ہمیں حکم دیا ہے کہ گنہگارروں کے معافی چاہتے ہو تو میرے مصطفی کے پاس آجاؤ سو ہم آگئے معاف کردے تو پھر محبوب بھی اندر سے سفارش کردے کے مولیٰ اسے معاف کردے اللہ ربّ العزت انکی توبہ قبول فرما لیگا تو اب جو یہ حکم ہے کہ "جَاوُکَ ” آجائیں محبوب آپکے پاس تو گھر سے چل کر محبوب کے روضہ کی زیارت کرنی چاہیے یا نہیں؟ بس سیدھی سی بات ہے کہ قرآن نے کیا کہا ہے؟ قرآن کی ہی بات مانیں گے تو قرآن نے کہا ہے "جَاوُکَ” قرآن نے یہ نہیں کہا "جَاوُکَ اِلَی الۡمَسۡجِدِ النَّبَوِیۡ” مسجد نبوی میں آجائیں قرآن نے یہ نہیں کہا کہ مسجد حرام میں آجائیں، یہ نہیں کہا میرے کعبہ میں آجائیں، میرے گھر آجائیں، مسجد میں آکر نماز پڑھیں پچاس ہزار نمازوں کا ثواب پائیں، قرآن یہ نہیں کہہ رہا ہے ۔ قرآن کیا کہہ رہا ہے کہ” جَاوُکَ” اے مصطفی ﷺ تیری بارگاہ میں آجائیں تو جب اللہ تعالٰی کا حکم ہے کہ ظلم کر بیٹھے اور جہاں بھی ہو تو آپکی خدمت میں آجائیں تو جب حکم خدا یہ ہے تو اب بتائیں حضور اکرم ﷺ کے روضہ مبارک کی زیارت کی نیت کرکے جانا چاہیے یا نہیں؟ بس سادہ سا سوال ہے کہ جب حکم خدا ہے” جَاوُکَ ” تو جب گھر سے چلیں تو بارگاہ مصطفی کی حاضری اور در مصطفی کی حاضری یا زیارت کی نیت کرکے چلنا چاہیے کیوں کہ” جَاوُکَ” میں تو رب کا بلاوا ہے کہ میرے محبوب کی طرف جاو اور تم کہو حضور کی طرف جانے کی نیت نہ کرو مسجد نبوی کی طرف جانے کی نیت کرو تو تم خدا سے بغاوت کرنا چاہتے ہو ۔خدا کے حکم کو ٹھکراتے ہو اب خود فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہمیں قرآن کے فرامین پر چلنے کی ضرورت ہے ناکہ انکی من گھڑت باتوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز کیا لوح و قلم تیرے ہیں۔