ازقلم: غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
کچھ وقت ہوا ایک پیر صاحب کی خاص محفل میں شرکت کا اتفاق ہوا۔مریدین کے مسائل و مشکلات سنتے اور حل کرتے ہوئے پیر صاحب کی طبیعت بوجھل سی ہوگئی تھی، اس لیے ایک ایسے شخص کو بہ طور خاص بلایا گیا جس کی پر شوخ اور مزاحیہ باتیں دل ودماغ کو ہلکا کردیں۔اشارے کی دیری تھی کہ بندہ اپنے کام پر شروع ہو گیا۔رات کی گہرائی کے ساتھ لطف وسرور کی لذت بھی گہراتی جارہی تھی۔واقعی اس بندے کی باتیں بڑی مزاحیہ اور گُد گُدانے والی تھیں، ذرا سی دیر میں پوری محفل ہنسی کی پھُہاروں سے گلزار نظر آرہی تھی۔رنگ محفل چٹک چٹک کر نکھر رہا تھا کہ اسی درمیان ایک بزرگ عالم دین کی آمد ہوئی، جو خیر سے پیر صاحب کے والد محترم کے استاذ ہوا کرتے تھے۔علم، عمل اور عمر کا لحاظ کرتے ہوئے فقیر کھڑا ہوگیا مگر یہ دیکھ کر بڑا حیران ہوا کہ پوری محفل میں مجھ بے ادب کے سوا ہر شخص اپنی جگہ بہ اطمینان بیٹھا ہوا تھا۔میری دانست کے مطابق حاضرین میں بھی کئی افراد ان کے شاگرد یا فیض یافتگان تھے اس کے باوجود ان کا "طرز ادب” حیران کن تھا، ایک نگاہ پیر صاحب کی جانب ڈالی جو "بہادر شاہ ظفر” کے انداز میں مسند طریقت پر جلوہ فرما تھے اور مکمل شان مغلئی کے ساتھ بزرگ عالم دین کو بیٹھنے کا اشارہ فرما رہے تھے۔محفل پہلے ہی پوری طرح پر تھی، اور اتنی جگہ کی متحمل نہیں تھی کہ کوئی قدرے آزادانہ طریقے پر بیٹھ سکے۔جمیع حاضرین پیر صاحب کی دل جوئی میں مصروف تھے۔ایک بد ذوق شخص میں ہی تھا سو میں نے ہی آگے بڑھ کر بزرگ عالم کو اپنی جگہ پیش کی اور خود محفل پہ قبضہ جمائے مریدوں کے درمیان جگہ بنانے کی جد وجہد میں لگ گیا، پھر خود سے پوچھا، تُو یہاں کیا کر رہا ہے؟
آواز آئی، بھائی تُو پیر صاحب کا مہمان ہے، ان کی اجازت کے بغیر تھوڑی سو سکتا ہے؟
بات ٹھیک تھی، پھر خیال آیا کہ یہ حضرت رات گیے کیوں پریشان ہوئے، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ پیر صاحب کی دست بوسی کے لیے آئے ہیں۔بات ان کی بھی ٹھیک تھی، تبھی سطح ذہن پر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب یہ شعر گردش کرنے لگا؛
أكرم ضيفك وإن كان حقيراً
وقم على مجلسك لأبيك ومعلمك وإن كُنت أميراً
"اپنے مہمان کی عزت کرو بھلے ہی وہ معمولی انسان ہو۔
اور اپنے باپ اور أستاذ کے لیے اپنی مسند سے اٹھ جاؤ بھلے ہی تم امیر و حاکم ہو۔”
آنے والے بزرگ عالم، مہمان اور أستاذ دونوں ہی تھے، لیکن لطف وکیف کی لذتوں میں کسے ہوش تھا؛
ہوش نہ تھا بے ہوشی تھی، بے ہوشی میں پھر ہوش کہاں
یاد رہی خاموشی تھی جو بھول گئے افسانہ تھا
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سفر کر رہے تھے۔دوران سفر اُنہیں ایک اعرابی نظر آیا۔آپ نے اسے دیکھا تو سواری کو روکا اور اپنی سواری پر بٹھا لیا۔وقت رخصت آپ نے اسے اپنا خوب صورت عمامہ بہ طور تحفہ پیش کیا۔عبداللہ بن دینار نے اُن سے کہا اللہ آپ کو جزائے خیر دے، یہ بادیہ نشیں لوگ تو چھوٹے موٹے تحائف سے بھی خوش ہوجاتے ہیں۔ان کا اشارہ قیمتی عمامے کی جانب تھا کہ اس کی بجائے کوئی ہلکا سا تحفہ بھی دیا جاسکتا تھا۔ابن دینار کی بات سن کر حضرت عبد اللہ ابن عمر فرماتے ہیں، آپ جانتے ہیں یہ شخص کون تھا؟
یہ میرے بابا حضرت عمر بن خطاب کے دوست کا بیٹا تھا، رسول ﷲ ﷺ فرماتے ہیں:
أِنّ مِنْ أَبَرِّ البِّر أَنْ يَصِلَ الرَّجُلُ أَهْلَ وُدَّ أَبِيهِ۔
(مسلم شریف،باب صلۃ الأصدقاء)
"سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ بھلائی کرے۔”
اللہ اللہ!
کیسے اچھے بھلے لوگ تھے کہ اپنے باپ کے دوستوں کے بیٹوں کے ساتھ بھی کس خوش اخلاقی اور بھلائی کے ساتھ پیش آتے تھے۔ان کے اخلاص ہی کا ثمرہ تھا کہ جہاں جاتے تھے عزت وسرخ روئی ان کا مقدر بنتی تھی، جہاں ٹھہرتے تھے غالب ومنصور رہتے تھے۔کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ سلوک وتصوف اور احسان و ادب کی باتیں، لیکچر اور مجلے نکالنے میں تو آج بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی، لیکن امیدوں کے مطابق نتیجہ کیوں نہیں نکلتا؟
اندر سے آواز آتی ہے میاں نتیجہ نہیں نکلے گا کیوں کہ؛
حالت خراب ہو تو مسیحا دوا کرے
نیت خراب ہو تو بھلا کوئی کیا کرے