ازقلم: محمد نفیس القادری امجدی
مدیر اعلی سہ ماہی عرفان رضا مرادآباد
پرنسپل جامعہ قادریہ مدینۃ العلوم گلڑیا معافی
خطیب و امام جامع مسجد اعلی حضرت منڈیا گنوں سہالی کھدر، مرادآباد، یوپی، الہند
قرآن و حدیث میں اہل اسلام کے لیے فرضیت صلوۃ و صوم اور حج و زکوۃ کے ساتھ صدقہ فطر کو بھی واجب قرار دیا ہے، صدقہ فطر مالی انفاق ہے جس کا حکم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زکوٰۃ سے پہلے اسی سال دیا جس سال رمضان کا روزہ فرض ہوا۔ صدقہ فطر غریبوں اور مسکینوں کو دیا جاتا ہے۔ اس کو فطرانہ بھی کہتے ہیں۔ اس کا ادا کرنا ہر مالدار شخص کے لئے ضروری ہے تا کہ غریب اور مسکین لوگ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ علاوہ ازیں صدقہ فطر روزے دار کو فضول اور فحش حرکات سے پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔
اللہ رب العزت جل جلالہ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى،وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰىؕ(سورۃالاعلی آیت 14/15)
ترجَمہ: بے شک مراد کو پہنچا جو ستھرا ہوا اور اپنے رب کا نام لے کرنماز پڑھی۔(کنز الایمان)
اس آیت کریمہ کےتحت حضورصدرالا فاضل
مفسر قرآن حضرت مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمۃ و الرضوان ’’ خزائن العرفان‘‘ میں لکھتے ہیں : اس آیت کی تفسیر میں یہ کہا گیا ہے کہ ’’ تَزَكّٰى‘‘ سے صدقہ فطر دینا اور رب کا نام لینے سے عید گاہ کے راستے میں تکبیریں کہنااور نماز سے نماز عید مراد ہے۔ (خزائن العرفان ص1064)
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فطرانے کی زکوٰۃ فرض فرمائی ہے کہ ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع جَو ہر غلام اور آزاد مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے مسلمان کی طرف سے اور حکم فرمایا کہ اسے لوگوں کے نماز عید کے لیے نکلنے سے پہلے ہی ادا کر دیا جائے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
(بخاری شریف، أبواب صدقة الفطر، باب فرض صدقة الفطر، 2/547، الرقم: 1432)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے مقام پر صدقہ فطر کے بارے میں ارشاد فرمایا:
،، بندۂ مومن کا روزہ آسمان و زمین کے درمیان معلق رہتا ہے جب تک بندہ مومن صدقہ فطر ادا نہ کرے۔(ملخصا۔الفردوس بمأثور الخطاب ج۲ص۳۹۵حدیث۳۷۵۴)
صدقہ فطر واجب اور لغو باتوں کا کفارہ ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو حکم دیا کہ جاکر مکہ مکرمہ کے گلی کوچوں میں اعلان کر دو،کہ ’’صد قہ فطر واجب ہے۔‘‘ ( تِرمذی ج۲ص۱۵۱حدیث۶۷۴)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر مقرر فرمایا تاکہ فضول اور بیہودہ کلام سے روزوں کی طہارت و صفائی ہوجائے۔ نیز مساکین کی خورش (یعنی خوراک)بھی ہوجائے۔ (ابو داؤد، السنن، کتاب الزکاة، باب زکاة الفطر، 2 : 28، رقم : 1609)
صدقہ فطر واجب ہونے کے 16 مسائل:
(1)صدقہ فطر ان تمام مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جو صاحب نصاب ہوں اور ان کا نصاب حاجات اصلیہ (یعنی ضروریات زندگی مثلاً رہنے کا مکان ، خانہ داری کا سامان وغیرہ)‘‘ سے فارغ ہو۔ (فتاوی عالمگیری ج۱ص۱۹۱)
(2)جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی رقم یا اتنی مالیت کا مال تجارت ہو (اور یہ سب حاجات اصلیہ سے فارغ ہوں ) یا اتنی مالیت کا حاجت اصلیہ کے علاوہ سامان ہو اس کو صاحب نصاب کہا جاتا ہے (مزید تفصیل بہار شریعت ملاحظہ فرمائیں)۔
(3) صدقہ فطر واجب ہونے کیلئے ،’’عاقل وبالغ ‘‘ہونا شرط نہیں ۔بلکہ بچہ یا مجنوون،پاگل بھی اگر صاحب نصاب ہوتو اس کے مال میں سے ان کا ولی، سرپرست صدقہ فطر ادا کرے۔
(ردالمحتار ۳ص۳۶۵)
’’صدقہ فطر ‘‘ کے لئے مقدار نصاب تو وہی ہے جو زکوٰۃ کا ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ صدقہ فطر کے لئے مال کے نامی (یعنی اس میں زیارتی و بڑھنےکی صلاحیت) ہونے اور سال گزرنے کی شرط نہیں ۔ اسی طرح جو چیزیں ضرورت سے زیادہ ہیں (جیسے عام ضرورت سے زیادہ کپڑے ، بے سلے جوڑے ، گھریلو زینت کی اشیا وغیرہ وغیرہ)اور ان کی قیمت نصاب کو پہنچتی ہو تو ان اشیا کی وجہ سے صدقہ فطر واجب ہے۔ (وقار الفتاویٰ ج۲ ص ۳۸۶ملخصا)
(4) مالک نصاب مرد پر اپنی طرف سے ،اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے اور اگر کوئی مجنون (یعنی پاگل )اولاد ہے (چاہے وہ پاگل اولاد بالغ ہی کیوں نہ ہو)تو اُس کی طرف سے بھی صدقہ فطر واجب ہے،ہاں اگر وہ بچہ یا مجنون خود صاحب نصاب ہے تو پھر اس کے مال میں سے فطرہ ادا کردے۔ (فتاوی عالمگیری ج۱ص۱۹۲)
(5) مرد صاحب نصاب پر اپنی بیوی یا ماں باپ یا چھوٹے بھائی بہن اور دیگر رشتے داروں کا فطرہ واجب نہیں ۔
(ایضاً ص۱۹۳ملخصا)
(6)والد نہ ہو تو دادا جان والد صاحب کی جگہ ہیں ۔یعنی اپنے فقیر ویتیم پوتے پوتیوں کی طرف سے ان پہ صدقہ فطر دینا واجب ہے۔ (درمختار ج۳ص۳۶۸)
(7) ماں پر اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے صدقہ فطر دینا واجب نہیں ۔ ( رد المحتار ج ۳ ص ۳۶۸)
(8) باپ پر اپنی عاقل بالغ اولاد کا فطرہ واجب نہیں ۔ (درمختار مع ردالمحتار ج۳ص۳۷۰)
(9) کسی صحیح شرعی مجبوری کے تحت روزے نہ رکھ سکا یا مَعَاذَ اللہ بغیر مجبوری کے رمضان المبارک کے روزے نہ رکھے اس پر بھی صاحب نصاب ہونے کی صورت میں صدقہ فطر واجب ہے۔ (ردالمُحتار ج ۳ ص ۳۶۷)
(10) بیوی یا بالغ اولاد جن کا نفقہ وغیرہ (یعنی روٹی کپڑے وغیرہ کا خرچ) جس شخص کے ذمے ہے، وہ اگر ان کی اجازت کے بغیر ہی ان کا فطرہ ادا کردے تو ادا ہوجائے گا ۔ہاں اگر نفقہ اس کے ذمے نہیں ہے مثلاً بالغ بیٹے نے شادی کرکے گھر الگ بسالیا اور اپنا گزارہ خودہی کرلیتا ہے تو اب اپنے نان و نفقہ(یعنی روٹی کپڑے وغیرہ ) کا خود ہی ذمہ دار ہوگیا ہے۔لہٰذا ایسی اولاد کی طرف سے بغیر اجازت فطرہ دے دیا تو ادا نہ ہوگا۔
(11)بیوی نے بغیر حکمِ شوہر اگر شوہر کا فطرہ ادا کردیا تو ادا نہ ہوگا۔ (بہار شریعت ج۱ص۳۹۸)
(12) عید الفطر کی صبح صادق طلوع ہوتے وقت جو صاحب نصاب تھا اسی پر صدقہ فطر واجب ہے ،اگر صبح صادق کے بعد صاحب نصاب ہوا تو اب واجب نہیں ۔ (ماخوذ از فتاویٰ عالمگیری ج۱ص۱۹۲)
(13) صدقہ فطر ادا کرنے کا افضل وقت تو یہی ہے کہ عید کو صبح صادق کے بعد عید کی نمازادا کرنے سے پہلے پہلے ادا کردیا جائے،اگر چاند رات یا رمضان المبارک کے کسی بھی دن بلکہ رمضان شریف سے پہلے بھی اگر کسی نے ادا کردیا تب بھی فطرہ ادا ہوگیا اور ایسا کرنا بالکل جائز ہے۔ (ایضاً)
(14)اگر عید کا دن گزر گیا اور فطرہ ادا نہ کیا تھا تب بھی فطرہ ساقط نہ ہوا،بلکہ عمر بھر میں جب بھی ادا کریں ادا ہی ہے ۔ (ایضاً)
(15)صدقہ فطر کے مصا رف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں ۔یعنی جن کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں انہیں فطرہ بھی دے سکتے ہیں اور جن کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے ان کوفطرہ بھی نہیں دے سکتے۔ (ایضاًص۱۹۴ ملخصاً)
(16)سادات کرام کو صدقہ فطر نہیں دے سکتے۔ کیوں کہ یہ بنی ہاشم سے ہیں ۔ بہارِ شریعت جلد اوّل صفحہ931پر ہے: بنی ہاشم کوزکاۃ(فطرہ) نہیں دے سکتے۔ نہ غیر انھیں دے سکے، نہ ایک ہاشمی دوسرے ہاشمی کو۔ بنی ہاشم سے مراد حضرت علی و جعفر و عقیل اور حضرت عباس و حارث بن عبدالمطلب کی اولادیں ہیں ۔
صدقہ فطر کی مقدار:
گیہوں یا اس کا آٹا یا ستو آدھا صاع(یعنی دوکلو میں 80 گرام کم ) (یاان کی قیمت)، کھجور یامُنَـقّٰی یا جو یا اس کا آٹا یا ستو ایک صاع( یعنی چار کلو میں 160 گرام کم) (یاان کی قیمت) یہ ایک صدقہ فطر کی مقدار ہے۔
(عالمگیری ج۱ص۱۹۱،درمختارج۳ص۳۷۲)
’’بہار شریعت‘‘ میں ہے : اعلٰی درجہ کی تحقیق اور احتیاط یہ ہے کہ: صاع کا وزن تین سو351/اکاون روپے بھر ہے اور نصف صاع ایک۱۷۵ سو پچھتر روپے اَٹھنی بھر اوپر۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۹۳۹ )
ان چار چیزوں کے علاوہ اگر کسی دوسری چیز سے فطرہ ادا کرنا چاہے، مثلاً چاول، جوار، باجرہ یا اور کوئی غلہ یا اور کوئی چیز دینا چاہے تو قیمت کا لحاظ کرنا ہوگا یعنی وہ چیز آدھے صاع گیہوں یا ایک صاع جو کی قیمت کی ہو، یہاں تک کہ روٹی دیں تو اس میں بھی قیمت کا لحاظ کیا جائے گا اگرچہ گیہوں یا جو کی ہو۔ (ایضاً)
حاصل کلام:
قرآن و حدیث سےواضح ہوگیا کہ ہر مسلمان پر صدقہ فطر کا ادا کرنا نماز عید الفطر سے قبل یہ زیادہ افضل ہے ۔
اللہ رب العزت جل جلالہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں ہم سب مسلمانان اہل سنت کے صدقہ فطر، صوم و صلوۃ کو قبول فرمائے۔
آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ۔