تحریر :محمد ہاشم اعظمی مصباحی
نوادہ مبارکپور اعظم گڈھ یوپی انڈیا
مکرمی : کہنے کو تو بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے 1947 میں بھارت کی آزادی کے فوراً بعد ملک و ملت کے دانشوران نے بلا تفریق مذہب و ملت سر جوڑ کر جمہوری قانون بنایاتھا جس میں سر فہرست اس قانون کا بڑے شد و مد کے ساتھ بیان کیا گیا تھا کہ آزاد بھارت میں رہنے والے سب لوگ اپنے اپنے مذہبی قانون کو فالو کرنے کے لئے آزاد ہیں اس معاملے میں کسی کے ساتھ کوئی جبر و تشدد نہیں کیا جاۓ گا اور نہ ہی کسی مذہبی عمارت جیسے مسجد، مندر، گرجا گھر، گرودوارہ اور کلیسا وغیرہ کو کوئی نقصان پہنچایا جائے گا بلکہ حکومت کی طرف سے انھیں سلامتی عطا کی جاۓ گی کیوں کہ اس ملک کی آزادی میں سبھی کا خون شامل ہے. لیکن یہاں تو معاملہ بالکل برعکس نظر آرہا ہے پچھلے 70 سالوں سے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو مذہب کے نام پر مشق ستم بنایا جارہا ہے ہمیشہ دوسرے درجے کا شہری ثابت کرنے کی ناپاک جسارت کی گئی ہے مسلمانوں کی مساجد ومدارس کو نشانہ بنایا جارہا ہے موجودہ حکومت کا ناپاک رویہ اس بار یوپی اسمبلی الیکشن میں کامیابی حاصل کرتے ہی مزید بھیانک ہوگیا ہے۔ یوں تو مسلم دشمنی کا کھیل آزادئ ہند سے ہی کھیلا جارہا ہے لیکن مودی اور یوگی راج میں اس کی لپٹ مزید تیز دکھائی دے رہی ہے۔2022 اتر پردیش میں اسمبلی انتخاب کا نتیجہ برآمد ہونے کے بعد ’بلڈوزر‘ لفظ کافی سرخیوں میں ہے۔ بی جے پی لیڈران اپنے بیانات میں اس لفظ کا خوب استعمال بھی کر رہے ہیں۔ اس درمیان زمینوں پر ہوئے غیر قانونی قبضہ کو ہٹائے جانے کے نام پر کچھ عمارتوں کو بلڈوزر سے منہدم بھی کیا گیا ہے. حد تو یہ ہے کہ غیر قانونی قبضہ ہٹانے کے نام پر سرکاری بلڈوزر کا رخ ہماری مساجد و مدارس اور مقابر کی طرف مکمل طور سے پھیر دیا گیا ہے دہلی، بہرائچ، اعظم گڈھ اور مبارکپور اس کی تازہ مثال ہے.
عید کے دوسرے دن 4 مئی کو سرکاری ظلم وستم اور مسلم دشمنی کا تازہ ترین واقعہ کانپور میں رونما ہوا جہاں پر 80 سالہ قدیم ایک مدرسہ کی عمارت کو غیر قانونی طور پر بلڈوز کردیا گیا ذرائع ابلاغ کے مطابق اترپردیش کے ضلع کانپور کے گھاٹم پور تحصیل میں بھدرس روڈ پر واقع مدرسہ اسلامیہ کی ایک بیش قیمتی عالی شان عمارت کو ڈسٹرک مجسٹریٹ کے حکم سے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے غیر قانونی قبضہ ہٹانے کے نام پر منہدم کردیا گیا مدرسہ کے اراکین نے جب اس کارروائی کی مخالفت کی تو انتظامیہ نے بھاری پولیس فورس تعینات کر کے ان کی آواز کو دبا دیا۔اس انہدامی کارروائی میں مدرسہ انتظامیہ کو اتنی بھی مہلت نہیں دی گئی کہ عمارت میں رکھے قرآن پاک اور دیگر مذہبی کتابوں کو نکالا جاسکے. مدرسہ کے پرنسپل انتظار احمد کو جب اطلاع ملی تو وہ فوراً موقع پر پہنچے لیکن تب تک سرکاری بلڈوزر اپنا کام تمام کرکے مدرسہ انتظامیہ کے خوابوں کا شیش محل چکنا چور کرچکا تھا پرنسپل انتظار احمد نے سرکار پر الزام عائد کیا کہ اس نے بغیر نوٹس دیے یہ کارروائی کی جسے قطعاً درست نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔مدرسہ کے پرنسپل نے مزید بتایا کہ سرکاری ظلم وستم کا نشانہ بننے والی مدرسہ کی یہ عمارت میری ذاتی زمین پر تعمیر ہے جس کا خسرہ نمبر 255 ہے مدرسے کے نام اس کی رجسٹری ہے اور بفضلہ تعالیٰ اس کے تمام کاغذات موجود و محفوظ ہیں سرکاری انتظامیہ نے مدرسہ کو بغیر تحقیق کیے نقصان پہنچایا ہے جو حیرت انگیز ہونے کے ساتھ مسلم دشمنی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
یاد رکھئے! یوگی حکومت کا بلڈوزر صرف مدارس و مساجد پر نہیں چل رہا ہے بلکہ ملک کی جمہوریت و سالمیت کو بلڈوز کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے ملک عزیز کی گنگا جمنی تہذیب مٹانے کی ناپاک جسارت کی جارہی ہے ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں اس طرح کے واقعات انتہائی شرمندگی کا باعث ہیں.کسی مفکر نے بہت پہلے یہ کہا تھا کہ جب اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر قانون کے محافظین ہی قانون کی دھجیاں اڑانے لگیں تو سمجھ جاؤ کہ ملک کی تباہی و بربادی کی راہ پر گامزن ہوچکاہے اور آج وہی ہو رہا ہے ایک خاص کمیونٹی کوتشدد کا نشانہ بنا جارہا ہے، مذہبی عمارتوں پر بنا کسی اصول و ضوابط کے بلڈوزر چلا یا جارہا ہے۔ غریب مسلمانوں کے گھر بار کو تباہ و برباد کیا جارہا ہے۔تو ظاہر سی بات ہے ملک بربادی کے دہانے پر کھڑا ہے.
hashimazmi78692@gmail.com