از قلم: محمد طاسین ندوی
اس دنیائے آب وگل میں بے شمار ادیان و فرق ہیں سب کے آشیانے الگ الگ، سب کے قبلے جدا جدا ہیں ہندو ،مسلم ،سکھ،عیسائی،جین،پارسی اور ایسے لاتعداد دھرم کا وجود ہے جو سب مست و مگن ہی لیکن ہم مسلمان ہی کیوں نشانے پر ہیں ؟
اس طرف توجہ کریں تو جواب ازھر من الشمش ہوجائیگا کہ ہمارے خلاف پروپیگنڈے اور دسیسہ کاریاں بے جا الزامات کے تانے بانے اپنے لئے دانستہ یاناداستہ ہم خود تیار کروا رہے ہیں سالہاسال سے ارض نیپال پر مسلمانوں کا وجود ہے لیکن کیا ہمارے پاس کوئی مستحکم پلیٹ فارم یامستحکم ثبوت ہے کہ ہم ابتداء سے ہیں ہماری جلوہ سامانیاں اور ہمارے کارنامے بھی ہیں تو شاید ہم مسلمانوں کو اس کا علم خال خال ہو ۔
یہی وجہ ہیکہ ہمارے حقوق ہڑپے جارہےہیں ، ہمیں دہشت گردی کی چادر اوڑھائی جارہی ہے ،ہر لحظہ و ہرآن ہمیں ذہنی پریشانی میں مبتلا رکھنے کی بھر پور سازشیں سامنے آرہی ہیں ابھی سن عیسوی جدید 2021 کی ابتداء ہی ہوئی کہ ایک ہندوستانی ٹی وی چینل tv9 بھارت ورش نے سراپا ایک جھوٹی رپوٹینگ چوکانےاور رونگٹے کھڑے کر دینے والی کی ہے کہ یوپی سے جڑے نیپال باڈر کے قریب جو مدارس ہیں یا نئےمدارس وجود میں آررہے ہیں ان سب کا تار داعش سے جڑتا ہے اور عرب ممالک کے فنڈنگ پر یہ مدارس وجود میں آرہے ہیں یہ ہم مسلمانان نیپال کے لئے لمحۂ فکریہ ہے ہمیں ہوش کا ناخن لیتے ہوئے حکومت وقت سے ان پروپیگنڈوں پر روک لگانے کی بھر پور کوشش کرنی چاہئیے ورنہ وہ دن دور نہیں کہ اس غلط عناصر کا لاوا پھوٹے اور ہمیں خاکستر کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرے نیپال کے باشندگان کے دل ملے ہوئے ضرور ہیں لیکن انہیں ورغلا کر، پھسلا کر ایک ایسے محاذ پر لے جانے کی ٹھانی ہوئی کچھ انڈین گودی میڈیا جس سے ماحول اور حالات خراب ہوں اور وہ مداری بندر کا ناچ دیکھانے میں مکمل کامیاب ہو ایسے پر آشوب وقت میں میری درخواست ہیکہ غیر مسلم برادران سے ان کذاب نامہ نگاروں کی رپوٹینگ اور بےجا باتوں پر کان نہ دھرتے ہوئے بچشم خود مدارس اسلامیہ کو دیکھیں بھالیں اور پرکھیں کہ کیا واقعی مدارس اسلامیہ کے سرے کسی ٹریرسٹ سنگٹھن یا دھشت گرد گروہ سے جڑتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ان کے خلاف کارروائیاں ہوں ایسے مراکز و دانش گاہ پر تالے ڈالے جائیں ،اسکی جڑیں کاٹی جائیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو ان غلط عناصر، اور باطل طاقت اور کذاب میڈیا کو کیفرے کردار تک پہنچائے جائیں اور اسطرح سے غلط باتیں پھیلانے والے نیوز اینکر جو سال نو ۲۰۲۱ ء کو بھی بالکل پراگندہ کرنے کی کوششیں کررہے پیں اسکو سخت سے سخت سزادی جائے جو اورں کے لئے نشان عبرت ہو.لیکن ایسا کیسے ممکن ہوگا کیونکہ دونوں ایک ہی راہ کے مسافر ہیں تو یہ ذہن نشین رہے کہ ایسا ہمارے لئے اسی وقت ممکن ہوگا جب ہم اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں گے نیپال کے قوانین و ضوابط سے روشناس کریں گے، نیپالی زبان و قلم سے مسلح کریں گے ، اور اگر ہم ہندی تہذیب و ثقافت ولسانیات کے لبادے سے اپنے کو دور نہ کیا تو ہمارے اوپر شوکت و رعب داب بنانے میں دوسرے برادران کامیاب ہونگے اور ہم اپنی شناخت و پہچان سے کوسوں دور ہوکر نت نئے آزمائش سے دوچار ہونگے .
ایسے پر فتن، روح فرسا حالات میں ہمیں نیپالی صحافت ولسانیات کے طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ملکی زبان و ادب کے شناور ہوسکیں اور اپنے مسائل و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کی سعی کرسکیں اور نیپالی صحافت میں بھی اپنا مقام پیدا کرنے کہ راستے ہموار ہوں اور پروپیگنڈہ کرنے والے باطل میڈیائی طاقت کو مسکت جواب دے کر مات دے سکیں کیونکہ
الوالعزمان دانشمند جب کرنے پہ آتے ہیں
سمندر پاٹتے ہیں کوہ سے دریا بہــاتے ہیں
ہم علماء، فضلاء، دانشوران کو چاہئیے کہ تعلیم سے اپنے اور قوم کے نونہالان کو جوڑیں تعلیمی مہم چلائیں تاکہ ہمارا وجود اور مستقبل تابناک ہوسکے ورنہ شب دیجور میں بھٹکتے پھریں
اللہ ہم سب کو اس عمل کی توفیق بخشے
وماذلك على الله بعزيز….